فیض آباد دھرنا کمیشن کی جانب سے صحیح نتائج پر پہنچنے کی کوشش ہی نہیں کی گئی، رانا ثناءاللہ

اس رپورٹ کی کوئی وقعت نہیں، خواجہ آصف کا ردعمل، وزیر دفاع نے کمیشن کو مذاق قرار دے دیا

Sajid Ali ساجد علی بدھ 17 اپریل 2024 12:40

فیض آباد دھرنا کمیشن کی جانب سے صحیح نتائج پر پہنچنے کی کوشش ہی نہیں ..
لاہور ( اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ 17 اپریل 2024ء ) پاکستان مسلم لیگ ن کے رہنما رانا ثنااللہ کا کہنا ہے کہ فیض آباد دھرنا کمیشن کی جانب سے صحیح نتائج پر پہنچنے کی کوشش ہی نہیں کی گئی۔ جیونیوز کو انٹرویو میں سابق وزیر داخلہ نے کہا کہ زاہد حامد خود استعفیٰ دینے پر تیار تھے لیکن اُس وقت تک ذہن بن چکا تھا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کے حکم کے مطابق آپریشن ہوگا، پنجاب حکومت اورایجنسیوں کی رائے تھی کہ آپریشن کے نتیجے میں اموات ہوں گی، آپریشن کرنے کے بعد بھی زاہد حامد کے استعفے والی بات ہی ماننی پڑی۔

اسی معاملے پر وزیر دفاع خواجہ آصف کا کہنا ہے کہ اس رپورٹ کی کوئی وقعت نہیں، یہ رپورٹ نہ تو مستند اور نہ ہی قابلِ بھروسہ ہے، فیض آباد کمیشن ایک مذاق تھا، جنرل ریٹائرڈ فیض حمید اور جنرل ریٹائرڈ باجوہ تو کمیشن کے سامنے پیش ہی نہیں ہوئے، صرف مجھ جیسے سیاسی ورکرز پیش ہوئے، کمیشن کے سامنے جا کر احساس ہوا کہ یہاں کوئی سنجیدگی نہیں، آنا ہی نہيں چاہیئے تھا، فیض آباد دھرنا کمیشن گریبان میں جھانکے کہ انہوں نے فرض نبھایا کہ نہیں نبھایا۔

(جاری ہے)

خیال رہے کہ فیض آباد دھرنا کے انکوائری کمیشن نے اپنی رپورٹ تیار کرلی جس میں فیض حمید کو کلین چٹ دیتے ہوئے اس وقت کی حکومت کو ذمہ دار قرار دے دیا گیا، فیض آباد دھرنا انکوائری کمیشن کی رپورٹ 149 صفحات پر مشتمل ہے، فیض آباد دھرنا انکوائری کمیشن نے اپنی رپورٹ میں سابق ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل (ر) فیض حمید کو کلین چٹ دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس وقت کے وزیراعظم شاہد خاقان نے فیض حمید کو معاملہ حل کرنےکا مینڈیٹ دیا، فیض حمید نے بطور میجر جنرل ڈی جی (سی) آئی ایس آئی معاہدے پر دستخط کرنے تھے، اس وقت کے ڈی جی آئی ایس آئی اور آرمی چیف نے فیض حمید کو معاہدے کی اجازت دی تھی، فیض حمید کے دستخط پر وزیراعظم شاہد خاقان، وزیرداخلہ احسن اقبال نے بھی اتفاق کیا۔

رپورٹ میں کمیشن نے کہا ہے کہ پولیس کے کمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹم میں کمزوریوں کا احاطہ کیا جائے، پالیسی سازوں کو فیض آباد دھرنے سے سبق سیکھنا ہوگا، حکومتی پالیسی میں خامیوں کی وجہ سے فیض آباد دھرنے جیسے واقعات کو ہوا ملتی ہے، سابق وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف اور ان کی حکومت کی غفلت، کوتاہی اور نا اہلی تھی جو لاہور سے اسلام آباد تک مارچ کرنے دیا، جڑواں شہروں کی پولیس میں رابطے کے فقدان کی وجہ سے ہلاکتیں ہوئیں اور سینکڑوں افراد زخمی ہوئے۔

فیض آباد دھرنا انکوائری کمیشن کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ وفاقی حکومت نے مظاہرین کی قیادت تک رسائی کے لیے آئی ایس آئی کی خدمات حاصل کیں، 25 نومبر 2017ء کو ایجنسی کے تعاون سے معاہدہ ہوا جس پر مظاہرین منتشر ہوگئے، دھرنے کے دوران فوجی افسروں، نوازشریف اور وزراء کو سوشل میڈیا پر دھمکیاں دی گئیں لیکن سوشل میڈیا پروپیگنڈے کے خلاف حکومت نے ایکشن لینے میں کوتاہی برتی۔

انکوائری کمیشن کا رپورٹ میں کہنا ہے کہ فیض آباد دھرنے کے دوران شہباز شریف وزیراعلیٰ پنجاب تھے، حکومت پنجاب غافل اور کمزور رہی جس کے باعث خون خرابہ ہوا، اس وقت کی ملکی قیادت نے کسی ادارے یا اہلکار کو مورد الزام نہیں ٹھہرایا، سویلین معاملے میں فوج یا ایجنسی کی مداخلت سے ادارے کی ساکھ شدید متاثر ہوتی ہے، فوج کو تنقید سے بچنے کے لیے عوامی معاملات میں ملوث نہیں ہونا چاہیئے، عوامی معاملات کی ہینڈلنگ آئی بی اور سول ایڈمنسٹریشن کی ذمہ داری ہے۔

رپورٹ میں تجاویز دی گئی ہیں کہ اسلام آباد تعیناتی سے قبل پولیس افسران کو دشوار علاقوں میں تعینات کیا جائے، امن عامہ حکومت کی ذمہ داری ہے، دیگر شعبوں کو مداخلت سے گریز کرنا چاہیے، پرتشدد انتہا پسندی سے نمٹنے کے لیے زیرو ٹالرنس پالیسی لازمی ہے، عقیدے کی بنیاد پر تشدد کے خاتمے کیلئے امن کواسٹریٹجک مقصد بنانا ہوگا، ریاست آئین، انسانی حقوق،جمہوریت اور قانون کی حکمرانی پر سمجھوتہ نہ کرے۔