کراچی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 19 ستمبر2024ء) وزیر بلدیات
سندھ سعید غنی نے کہا ہے کہ بارشوں کے بعد سڑکوں کی استرکاری کے کام کا آغاز کردیا گیا ہے اور کچھ کنٹریکٹرز کو ماضی میں خراب کام پر انہیں بلیک لسٹ بھی کیا گیا ہے اور ہمارے کچھ انجنئیرز کے خلاف بھی کارروائی کی جارہی ہے۔ کے ایم سی کی 100 سے زائد سڑکوں کے لئے
سندھ حکومت 1.5 ارب روپے ادا کرے گی۔
ہمارے مخالفین عوام میں یہ تاثر پیدا کرنے کی سازش کررہے ہیں کہ
پیپلز پارٹی صرف اپنے ہی علاقوں میں کام کروا رہی ہے جو سراسر غلط ہے۔ 2014 میں مسلم لیگ نون کی وفاقی حکومت نے ہماری بات مان لیتی تو آج پاکستانیوں کو سستی
بجلی مل رہی ہوتی اور ان کا بل اتنا ہوتا کہ وہ ادا بھی کرسکتے اور اس وقت ملکی معیشت پر
بجلی مہنگی ہونے کا جو بوجھ آرہا ہے ہم اس سے بھی بچ جاتے۔
(جاری ہے)
ان خیالات کا اظہار انہوں نے جمعرات کے روز میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کیا۔ سعید غنی نے کہا کہ بارشوں کے بعد سڑکوں کی استرکاری کے کام کا آغاز کردیا گیا ہے اور کچھ کنٹریکٹرز کو ماضی میں خراب کام پر انہیں بلیک لسٹ بھی کیا گیا ہے اور ہمارے کچھ انجنئیرز کے خلاف بھی کارروائی کی جارہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ جو سڑکیں خراب ہوئی ہیں ان کی مختلف وجوہات ہیں، صرف بارشوں کا سبب نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس بار مون سون طویل رہا۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے یہاں جیسے ہی پہلی
بارش ہوتی ہے لوگ اپنے عام طور پر سیوریج کے مین ہول کے ڈھکن کھول دیتے ہیں تاکہ بارشوں کا
پانی وہاں سے نکل جائے، اس سے ہوتا یہ ہے کہ سیوریج کی لائینیں آوور فلو ہوکر ان کا
پانی سڑکوں پر آجاتا ہے۔ سعید غنی نے کہا کہ یہ
پانی بارشوں کے
پانی سے 100 گنا زیادہ سڑکوں کے لئے خطرناک ہوتا ہے اور یہ سڑکوں کو خراب ہونے کا سبب بنتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ 1.5 ارب روپے صرف کے ایم سی کو 100 سے زیادہ سڑکوں کے لئے ہے جبکہ ان پر اخراجات 1.9 ارب روپے ہے اور اس میں سے 400 ملین روپے کے ایم سی اپنے پاس سے دے گی۔ انہوں نے کہا کہ اس کے ساتھ ساتھ
کراچی کے 25 ٹانز کی سڑکیں بھی متاثر ہوئی ہیں اس حوالے سے ان تمام ٹائونز سے رپورٹ طلب کرلی ہے اور پیر تک تمام ٹائونز کی رپورٹ موصول ہوگی اس کے بعد ان کو بھی
سندھ حکومت اندازے کے مطابق 2 بلین روپے ان سڑکوں کی مرمت ہے لئے انہیں فراہم کرے گی۔
سعید غنی نے کہا کہ سڑکیں ہمیں سب ٹھیک کرنا ہے اور اس پر جتنے اخراجات آئیں گے
سندھ حکومت ادا کرے گی۔ ایک سوال کے جواب میں سعید غنی نے کہا کہ ہم نے پورے
سندھ کی تمام یونین کونسلز، یونین کمیٹیوں اور ٹائونز کی او زی ٹی شئیر میں خاطر خواہ اضافہ کیا ہے اور اکثر جو مسئلہ ملازمین کی تنخواہوں کی ادائیگی کا ہوتا تھا اس کا نہ صرف سدباب کیا ہے بلکہ ریٹائرڈ ملازمین کی پینشن کو بھی او زی ٹی شئیر میں اضافہ کرکے محفوظ کیا ہے۔
اسی طرح اربن ایریا کی یونین کمیٹیوں کو 5 لاکھ سے بڑھا کر 12 لاکھ اور رورل ایریا کی یونین کونسلز کو 5 لاکھ سے بڑھا کر 10 لاکھ روپے کردیا ہے تاکہ وہ اپنی اپنی یوسیز میں چھوٹے بڑے کام کروا سکیں۔ انہوں نے کہا کہ ٹائونز کے تحت سڑکوں کو بنانے یا اس کو سینٹرلائیز کرنے کے حوالے سے بات چیت چل رہی ہے لیکن ہمارا ایک ہی موقف ہے کہ کوالٹی پر کسی قسم کا کوئی کمپرومائز نہیں کیا جایے گا۔
ایک اور سوال کے جواب میں سعید غنی نے کہا کہ گذشتہ روز ہونے والے اجلاس میں اس بات پر بھی اتفاق ہوا ہے کہ ہم جن سڑکوں کو ٹھیک کریں گے وہاں ڈرینج کے نظام کو بھی درست کیا جائے گا۔ ایک سوال کے جواب میں سعید غنی نے کہا کہ اس بات پر مجھے سخت تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے کہ میں کہتا ہوں کہ عوام کو بھی اپنی ذمہ داری کا احساس کرنا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ اکثر جب مین ہالز صاف کرتے ہیں تو ان میں سے اینٹیں، پتھر اور بوریاں تک نکلتی ہیں، جب یہ چیزیں ہوں گے تو لازمی طور پر سیوریج کا نظام خراب ہوگا اور
پانی سڑکوں پر بہہ جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ یہ چیزیں جان بوجھ کر مین ہال میں ڈالی جاتی ہیں، جس سے فوری طور پر سیوریج کا
پانی سڑکوں پر بہنا شروع ہوجاتا ہے اور لانگ ٹرم میں وہاں کا انفراسٹرکچر تباہ ہوجاتا ہے اور اس پر بہت سارا خرچہ آجاتا ہے اور عوام کو پریشانیوں کا بھی سامنا کرنا پڑ جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ پیسہ نہ میری جیب سے جارہا ہے اور نہ ہی وزیر اعلی
سندھ کی جیب سے بلکہ یہ پیسہ سرکار کا ہوتا ہے اور یہ عوام کے ٹیکسوں کا پیسہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ عجیب سے چیز ہے کہ جو پیسہ ہمیں اپنی بہتری پر لگانا چاہیے ہم ان سڑکوں اور گٹروں پر لگا دیتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں مل جل کر اس بارے میں اب سنجیدگی سے سوچنا ہوگا کہ تو کافی خرچہ بچ سکے گا۔ ایک اور سوال کے جواب میں سعید غنی نے کہا کہ ہمارے ذہن میں قطعی طور پر یہ سوچ نہیں ہے کہ جو ٹائونز
پیپلز پارٹی کے نہیں ہیں، ہم ان کو کام نہیں کرنے دیں گے یا ان کو فنڈ جاری نہیں کریں گے۔
انہوں نے کہا کہ اس وقت بھی ہم نے سڑکوں کے ٹھیک کرنے کی بات ہوئی ہے تو ہم نے بلا امتیاز
پیپلز پارٹی یا دیگر پارٹی سے ہٹ کر
کراچی اور حیدرآباد میں کام کریں گے۔ ایک اور سوال کے جواب میں سعید غنی نے کہا کہ سڑکوں کی کوالٹی اور اسٹینڈرڈ کے قانون ہے اس مرتبہ کوالٹی پر کوئی کمپرومائز نہیں کیا جایے گا اور قانون میں دئیے گئے قانونی تقاضوں کے مطابق کام کیا جائے گا۔
ایک اور سوال میں سعید غنی نے کہا کہ ہم نے کنٹریکٹر جن کے کام کوالٹی سے ہٹ کر کیا ہے ان کے خلاف کارروائیوں کا آغاز کردیا ہے اور مئیر
کراچی نے نہ صرف کچھ کنٹریکٹرز کو بلیک لسٹ کیا ہے بلکہ کچھ انجنئیرز کے خلاف بھی کارروائی کریں گے۔ ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ
کراچی میں سڑکیں کے ایم سی کے علاوہ کئی دیگر ادارے بھی سڑکیں بناتے ہیں، ہم تمام کا جائزہ لے رہے ہیں۔
ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ
کراچی میگا پروجیکٹ سمیت دیگر بڑے منصوبوں میں کنٹریکٹرز کے علاوہ ہمارے ساتھ بڑی کنسلٹینٹ کمپنیاں کام کررہی ہے۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ کورنگی کاز وے جنوری میں مکمل کردیا جائے گا جبکہ ملیر ایکسپریس وے کو آئندہ مالی سال میں مکمل کرلیا جائے گا۔ ایک سوال کے جواب میں سعید غنی نے کہا کہ ہمارے مخالفین عوام میں یہ تاثر پیدا کرنے کی سازش کررہے ہیں کہ
پیپلز پارٹی صرف اپنے ہی علاقوں میں کام کروا رہی ہے، جو سراسر غلط ہے۔
گذشتہ 6 سالوں کے دوران ڈسٹرکٹ سینٹرل اور ڈسٹرکٹ کورنگی جو کبھی
پیپلز پارٹی کے علاقے نہیں رہے وہاں اربوں روپے کے ترقیاتی کام کروائے گئے اور کئی میگا پروجیکٹ وہاں بنائے گئے۔ گذشتہ
بلدیاتی یا جنرل
الیکشن میں کورنگی سے
پیپلز پارٹی کا ایک یوسی چیئرمین بھی نہیں تھا اور ہمارے کام کو دیکھ کر اس بار نہ صرف کئی یوسی چیئرمین پیپلزپارٹی کے ہیں بلکہ ٹائون چیئرمین بھی
پیپلز پارٹی کا ہے اور ایک رکن سندھ
اسمبلی بھی اب وہاں سے ہمارا ہے۔
انہوں نے کہا کہ
پیپلز پارٹی اس ملک کی واحد سیاسی جماعت ہے جو بلا رنگ و نسل، مذہب اور سیاسی وابستگی کے صرف اور صرف عوام کی خدمت پر یقین رکھتی ہے۔ ایک اور سوال کے جواب میں سعید غنی نے کہا کہ ایک سے دو ماہ میں تمام سڑکوں کو ٹھیک کردیا جائے گا البتہ گلی کوچوں کو بھی جلد سے جلد ٹھیک کیا جائے گا۔ ایک سوال کے جواب میں سعید غنی نے کہا کہ ہمارے مخالفین ہمارے جج نہیں ہوسکتے بلکہ جو شہری ہیں وہ ہمارے جج ہیں اور وہ ہی ہماری کارکردگی اور کاموں کو دیکھ کر ہمیں
ووٹ دیتے ہیں۔
کے الیکٹرک کے حوالے سے پوچھے گئے سوال کے جواب میں سعید غنی نے کہا کہ
بجلی کا سسٹم صوبائی حکومت کے کنٹرول میں نہیں ہے، دوسرا مسئلہ
بجلی مہنگی ہوجانا ہے اور اس وقت
غریب کے ساتھ ساتھ متوسط طبقہ کے لئے بھی
بجلی کے بلز کی ادائیگی مشکل ہوکر رہ گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ جب ادائیگی نہیں ہوگی اور
بجلی فراہم کرنے والی کمپنیوں کو ان کا ریونیو نہیں ملتا تو عوام کو بلا تعطل
بجلی کی فراہمی نہیں ہوتی اور
لوڈشیڈنگ ہوتی ہے اور اس وقت بھی
کراچی کے کئی علاقوں میں 12 گھنٹوں سے زیادہ تک کی
لوڈشیڈنگ ہورہی ہے اور جب
لوڈشیڈنگ ہوتی ہے تو
پانی کی فراہمی بھی شدید متاثر ہوتی ہے، ہمارے
کراچی کے کئی علاقوں میں سیوریج سسٹم بھی پمپنگ اسٹیشن سے چلتا ہے وہاں بھی
بجلی کی بندش سے دشواریاں پیدا ہوتی ہیں اور
بجلی کی بندش سے صرف عوام ہی نہیں بلکہ حکومتی مشینری بھی متاثر ہوتی ہے۔
اس تمام صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے وفاقی حکومت کو ایسے اقدامات کرنا ہوں گے کہ
بجلی سستی ہو۔ انہوں نے کہا کہ
سندھ حکومت نے آج سے 10 سال قبل یعنی 2014 سے جب پی ایم ایل نون کی حکومت تھی، جب ان کے سامنے کہہ کہہ کر تھک گئے، خط لکھیں، مٹینگز کی کہ آپ سولر اور کول کے اوپر آئیں، آپ ونڈ انرجی پر آئیں لیکن وہ ہماری بات نہیں سنتے تھے اور ہماری تمام درخواستوں کو ایک طرف ڈال دیا تھا۔
آج 10 سال کے بعد انہیں احساس ہوا ہے کہ اگر 2014 میں وہ ہماری بات مان لیتے تو آج پاکستانیوں کو سستی
بجلی مل رہی ہوتی اور ان کا بل اتنا ہوتا کہ وہ ادا بھی کرسکتے اور اس وقت ملکی معیشت پر
بجلی مہنگی ہونے کا جو بوجھ آرہا ہے ہم اس سے بھی بچ جاتے۔ انہوں نے کہا کہ 2014 میں ہماری بات مان لی جاتی تو آج
ڈالر مہنگا ہونے کے باوجود بھی پورے ملک کو 10 سے 12 روپے فی یونٹ
بجلی دی جاسکتی تھی، لیکن اس وقت میں ہماری باتوں کو نہ اس وقت کی وفاقی حکومت نے سنجیدہ لیا اور نہ مسلم لیگ نون کی قیادت نے کوئی سنجیدگی دکھائی۔