وزیراعظم نے قومی اقتصادی پلان ’اڑان پاکستان29-2024‘ پروگرام کا افتتاح کردیا

پیچھے رہنے جانے پر رونے کا فائدہ نہیں، ایماندارانہ تجزیہ قوموں کی زندگی کو بدل دیتا ہے، وزیراعظم ریاست کو بچانے کے لیے کسی بھی حد تک جائیں گے اور تنائج میں پیدا حالات کا سامنا کریں گے،شہبازشریف کا خطاب

منگل 31 دسمبر 2024 18:25

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 31 دسمبر2024ء)وزیراعظم شہباز شریف نے قومی اقتصادی پلان ’اڑان پاکستان29-2024‘ پروگرام کا افتتاح کرتے ہوئے کہاہے کہ یہ عظیم دن ہے ،بے پناہ چیلنجز کے باوجود معاشی استحکام حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے، پیچھے رہنے جانے پر رونے کا فائدہ نہیں، ایماندارانہ تجزیہ قوموں کی زندگی کو بدل دیتا ہے،ریاست کو بچانے کے لیے کسی بھی حد تک جائیں گے اور تنائج میں پیدا حالات کا سامنا کریں گے۔

وزیراعظم شہباز شریف نے قومی اقتصادی پلان ’اڑان پاکستان29-2024‘ پروگرام کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آج عظیم دن ہے، بے پناہ چیلنجز کے باوجود معاشی استحکام حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے، پیچھے رہنے جانے پر رونے کا فائدہ نہیں، ایماندارانہ تجزیہ قوموں کی زندگی کو بدل دیتا ہے۔

(جاری ہے)

انہوںنے کہاکہ میں اس موقع پر کوئی سیاسی گفتگو نہیں کروں گا، جب 2023 میں آئی ایم ایف پروگرام کے لیے سر توڑ کوشش کر رہے تھے، پاکستان دیوالیہ ہونے کے دہانے پر تھا، اس سے بچنے کے لیے ہماری قیادت اور اتحادیوں نے فیصلہ کیا کہ سیاست نہیں، ریاست کو بچانے کے لیے کسی بھی حد تک جائیں گے اور تنائج میں پیدا حالات کا سامنا کریں گے۔

وزیر اعظم نے کہا کہ آئی ایم ایف پروگرام روکنے کے لیے خطوط لکھیگئیتھے کہ پروگرام نہ کیا جائے، اس سے بڑی عوام کے ساتھ زیادتی کیا ہوسکتی ہے۔شہباز شریف نے کہا کہ پاکستان کے عوام نے 38 فیصد مہنگائی کا بوجھ برداشت کیا، کاروباری حضرات 22 فیصد شرح سود دیکھ کر خوفزدہ تھے، زر مبادلہ کے ذخائر محدود تھے، مجبوری میں ہمیں ایک اور ا?ئی ایم ایف پروگرام لینا پڑا، اس کے لیے وفاقی حکومت کے ساتھ صوبائی حکومتوں نے بھرپور تعاون کیا، ان کے بغیر یہ ممکن نہیں تھا۔

انہوں نے کہا کہ میری دعا ہے کہ یہ پاکستان کی تاریخ کا آخری پروگروام ہوگا، اس کی مثالیں موجود ہیں، پڑوسی ملک نے 90 کی دہائی کے بعد دوبارہ آئی ایم ایف کی طرف مڑ کر نہیں دیکھا۔انہوںنے کہاکہ قدرت نے اس ملک کو وسائل دیے ہیں لیکن سوچنے کی بات ہے ہمیں ایک بار پھر آئی ایم ایف پروگرام کیوں لینا پڑا۔وزیراعظم نے کہا کہ گزشتہ ایک دہائی میں ریاستی ملکیتی اداروں نے 6 کھرب کا نقصان کیا، آئی ایم ایف پروگرام میں ہمیں 7 ارب ڈالرز قرض میں مل رہے ہیں تاکہ استحکام آئے اور پاکستان شرح نمو کی طرف جائے۔

شہباز شریف نے کہا کہ یہ بات ذہن میں رہنی چاہیے کہ اگر 6 کھرب کے نقصانات اس غریب قوم نے برداشت کیے جو دریا برد ہوگئے، 4 کھرب میں بننے والی بجلی 2 کھرب میں بکے تو 2 ارب کا خسارہ کس کے کھاتے میں ڈالیں، 70 سال میں کھربوں روپے کی کرپشن ہوئی تو قرضے نہیں لیں گے تو کیا کریں گے، یہ وہ وجوہات ہیں جس کی وجہ سے پاکستان قرضوں کے بوجھ تلے دبا ہوا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اگر ہم قائد اعظم کے فرمودات کے تحت چلتے تو آج پاکستان قرضوں کے بوجھ تلے دبا نہ ہوتا اور ترقی کے لیے درکار وسائل موجود ہوتے۔انہوںنے کہاکہ آج ہم کتنا پیچھے چلے گئے ہیں، اس کا کوئی شمار نہیں، اس پر رونے دھونے کا کوئی فائدہ نہیں، لعن، طعن کرنے کا کوئی فائدہ نہیں، ہاں گریبان میں جھانک کر، ایماندارانہ تجزیہ قوموں کی زندگی کو بدل دیتا ہے۔

وزیر اعظم نے کہا کہ آج ہم فیصلہ کرلیں کہ ماضی میں نقصانات ہوئے، جو خامیاں یا کمزوردیاں ہوئینِ ان کو سامنے رکھ کر پوری قوم کام،کام اور کام، محنت، محنت اور محنت کا سفر اختیار کریں تو بلا خوف تردید میں آپ کو کہہ سکتا ہوں کہ وہ دن دور نہیں جب پاکستان اقوام عالم میں اپنا کھویا ہوا مقام حاصل کرلے گا، ہمیں راست بدلنا ہوگا، بلکل نئی طرح استعمال کرنی ہوگی۔

شہباز شریف نے کہا کہ ماضی قریب میں ہم متکبرانہ اور نا پسندیدہ رویوں کی وجہ سے دنیا میں تنہا ہوگئے، ایک دوست ملک سے ہم نے ایک ارب ڈالرز کا قرضہ مانگا، وہاں کے اکابرین نے مجھے بتایا کہ ہم نے فیصلہ کیا کہ آدھا ارب ڈالر پاکستان کو دے دیتے ہیں، شہباز شریف صاحب آپ کے ملک سے جواب آیا کہ یہ واپس رکھو، ہمیں نہیں چاہیے۔وزیر اعظم نے کہا کہ بتائیے کہ ایک تو آپ مانگ رہے ہیں اور اوپر سے آپ اکڑ رہے ہیں کہ ہمیں نہیں چاہیے، یہ کتنا بڑا تضاد ہے، اس کے علاوہ ایک اور دوست کے خلاف جو باتیں کی گئیں، وہ میں اپنی زبان پر بھی نہیں لا سکتا، یہ تو ہمارے اندر یہ صلاحیت ہوتی کہ پاکستان اپنے پاؤں پر کھڑا ہے، ایک طرف ہم نے کشکول اٹھایا ہوا ہے، دوسری طرف کہہ رہے کہ ہمیں نہیں لینا۔

شہباز شریف نے کہا کہ منموہن سنگھ نے نواز شریف کے ماڈل کو اختیار کیا، نواز شریف کے دور حکومت میں جو اصلاحات ہوئیں، ان پر عمل کیا، جو ریفارمز یہاں ہوئیں، ان کو اختیار کیا۔