اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 19 مارچ 2025ء) قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس کے بعد فوج کے ادارے آئی ایس پی آر نے ملکی آرمی چیف جنرل عاصم منیر کا ایک بیان جاری کیا، جس میں کہا گیا ہے، ''ہمیں بہتر گورننس کے ساتھ ساتھ پاکستان کو ہارڈ اسٹیٹ بنانے کی ضرورت ہے۔ ہم کب تک سافٹ اسٹیٹ کی طرح بے شمار جانیں قربان کرتے رہیں گے؟‘‘
جنرل منیر نے مزید کہا، ''ملک کی سلامتی سے بڑھ کر کوئی ایجنڈا، تحریک یا شخصیت نہیں۔
پائیدار استحکام کے لیے قومی طاقت کے تمام عناصر کو ہم آہنگی سے کام کرنا ہو گا۔‘‘ایک ’ہارڈ اسٹیٹ‘ کیا ہوتی ہے؟
حکومت پاکستان کے حامی اور مخالفین اس بیان کی اپنی اپنی تشریح پیش کر رہے ہیں۔ لیکن ہارڈ اسٹیٹ ہوتی کیا ہے؟ درست تعریف یہ ہے کہ ہارڈ اسٹیٹ ایک مضبوط مرکزی اتھارٹی، سخت قوانین اور قومی سلامتی کو شہری آزادیوں پر ترجیح دینے والی ریاست ہوتی ہے، جو فیصلہ کن اقدامات اور طاقت کے ذریعے مسائل حل کرتی ہے۔
(جاری ہے)
ماہر سیاسیات ڈاکٹر حسن عسکری رضوی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''ہارڈ اسٹیٹ سادہ الفاظ میں اپنے مخالفین یا نقصان پہنچانے والوں سے سختی سے پیش آتی ہے اور لچک کی بجائے طاقت سے مسائل حل کرتی ہے۔
‘‘ لیکن انہوں نے خبردار کرتے ہوئے کہا، ''موجودہ دور میں سختی سے حل ممکن نہیں۔ اعلان کرنا آسان ہے، عملدرآمد نہیں۔ ہم نہیں جانتے کہ کس کے ساتھ کتنی سختی کا ارادہ ہے، لیکن ریاست طاقت کے استعمال میں سنجیدہ دکھائی دیتی ہے۔‘‘بلوچستان میں آپریشن کا خدشہ
کئی مبصرین بلوچستان اور دیگر شورش زدہ علاقوں میں فوجی آپریشن کا امکان ظاہر کر رہے ہیں۔
سینئر صحافی امتیاز عالم نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، "پاکستان پہلے ہی سکیورٹی اسٹیٹ ہے۔ آئین معطل، عدلیہ دباؤ میں، میڈیا آزاد نہیں اور ہائبرڈ نظام رائج ہے۔ اسے اور کتنا سخت بنائیں گے؟‘‘ان کا مزید کہنا تھا، ''بلوچستان میں 20 سال سے آپریشن ہو رہے ہیں، کیا مزاحمت ختم ہوئی، بغاوت کم ہوئی؟ مزید سختی سے بہتر ہے کہ اعلانیہ مارشل لا لگا دیں۔
‘‘سوشل میڈیا پر بھی ردعمل تیز ہے۔ حکومت کے حامی اس بیان کی حمایت کر رہے ہیں، جبکہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) اور دیگر اپوزیشن جماعتیں اسے تنقید کا نشانہ بنا رہی ہیں۔ ایک صارف وسیم ملک نے ایکس پر لکھا، ''آئین معطل ہے، سکیورٹی ایجنسیوں نے گھروں کی حرمت پامال کی، عام شہریوں پر فوجی عدالتوں میں مقدمات چلائے گئے، مینڈیٹ چھینا گیا اور غیر اعلانیہ مارشل لا نافذ ہے۔
اس سے زیادہ ہارڈ اسٹیٹ کیا ہوگی؟‘‘دفاعی نقطہ نظر
دفاعی تجزیہ نگار بریگیڈیئر (ر) فاروق حمید نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''ملکی ادارے بہتری کے لیے کام کر رہے ہیں، ان کی نیت پر شک نہ کیا جائے۔‘‘
ان کا مزید کہنا تھا، ''افغانستان سے دہشت گردی اور بلوچستان میں غیر ملکی ایجنسیوں کے کھیل کو دیکھتے ہوئے آرمی چیف نے درست موقف اپنایا۔
یہ بیان خوشی سے نہیں، بلکہ جوانوں کی شہادتوں کے بعد آیا ہے۔ میرے خیال میں آپ آئندہ مذاکرات یا نرمی برتو جیسے الفاظ کم سنیں گے۔‘‘سیاسی حل کی ضرورت
پشاور یونیورسٹی کے شعبہ بین الاقوامی تعلقات کے سربراہ پروفیسر ڈاکٹر حسین شہید سہروردی نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہا، ''پاکستان اکیلا ملک نہیں، جہاں شورش ہے۔
یہ کہنا غلط ہے کہ طاقت ہی واحد حل ہے۔ سقوط ڈھاکہ سے پہلے بھی ہم نے طاقت استعمال کی اور نتیجہ سب کے سامنے ہے۔‘‘ان کا مزید کہنا تھا، ''مشرف نے بلوچوں کو جب یہ کہا کہ تمہیں ایسی جگہ سے ہٹ کیا جائے گا کہ آپ کو پتا بھی نہیں چلے گا ۔ اس جملے نے وہاں، جو ردعمل پیدا کیا، وہ سب کے سامنے ہے۔‘‘
ان کا زور دیتے ہوئے کہنا تھا، ''حکومت کو سوچنا چاہیے کہ وہ کیا وجوہات ہیں، جن کی بنا پر پی ٹی آئی، ٹی ٹی پی اور پی ٹی ایم ایک مشترکہ بیانیے کی طرف جا رہے ہیں۔ یہ حالات سختی کا نہیں حکمت کا تقاضا کرتے ہیں۔ بڑے عہدوں والوں کو نرمی دکھا کر بات چیت سے حل نکالنا چاہیے، ورنہ واپسی کا راستہ بند ہو جائے گا۔‘‘