ْبلوچستان کے عوام کی ملک میں جمہوریت کے فروغ کیلئے بہت بڑی جہدوجہد رہی ہے‘ جان محمد بلیدی

ہم سمجھتے ہیں پاکستان کو منظم ،مضبوط رکھنا ہے تو ضروری ہے اس میں جو قومیں بستی ہیں ان کے وجود کو تسلیم کیا جائے ،وسائل پر اختیار کو تسلیم کیا جائے لاہور پریس کلب میں ’’بلوچستان کے مسائل، ان کا حل اور وفاق‘‘کے موضوع پر منعقدہ تقریب سے خطاب ،صحافیوں کے سوالات کے جوابات

جمعہ 11 اپریل 2025 21:50

�اہور(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 11 اپریل2025ء)نیشنل پارٹی کے مرکزی رہنما سینیٹر جان محمد بلیدی نے کہا ہے کہ بلوچستان کے عوام کی ملک میں جمہوریت کے فروغ کے لئے بہت بڑی جہدوجہد رہی ہے،یہ جہدوجہد آج کی نہیں ہے یہ طویل رہی ہے اورپاکستان میں جو جمہوریت نظر آرہی ہے یہ سیاسی جہدوجہد کا نتیجہ ہے،پاکستان کے وفاقی نظام کی جو بڑی کمزوری ہے وہ یہ ہے کہ یہاں جو قومیں بستی ہیں انہوںنے سیاسی، معاشی اور معاشرتی مفادات کا پاس نہیں رکھا،ایک مخصوص سوچ جو اس ملک میں موجود تھی انہوںنے کوشش کی کہ قوموں کی سوچ کو تسلیم نہ کرے،ہم سمجھتے ہیں کہ پاکستان کو منظم اور مضبوط رکھنا ہے تو ضروری ہے اس میں جو قومیں بستی ہیں ان کے وجود کو تسلیم کیا جائے ان کے وسائل پر ان کے اختیار کو تسلیم کیا جائے۔

(جاری ہے)

ان خیالات کا اظہارا نہوں نے لاہور پریس کلب میں ’’بلوچستان کے مسائل، ان کا حل اور وفاق‘‘کے موضوع پر منعقدہ تقریب سے خطاب اور صحافیوں کے سوالات کے جوابات دیتے ہوئے کیا ۔ تقریب سے دیگر مقررین نے بھی خطاب کیا ۔ جان محمد بلیدی نے کہا کہ کسی نہ کسی کی طرف سے یہ کوشش کی جاتی رہی ہے کہ قوموں کے مسئلے کو نظرانداز کرے،ان کی زبان ، کلچر تاریخ کو خراب کیا جائے،لوگوں کو وہ چیز دکھائی جائے جو یہاں نہ ہو،یہاں کے لوگوں کی تاریخ اور جہدوجہد کو الگ کیا جائے اور قوموں کے وجود کو نہ ماناجائے ،اسی وجہ سے 47کا پاکستان 77میں باقی نہ رہا ۔

انہوں نے کہا کہ اس ساری سیاسی جہدوجہد میں بلوچ لیڈر شپ نے کوشش کی کہ پاکستان کی جہدوجہد میں اس کا ساتھ دے،جو سوال ایوب خان کے دور میں تھے آج بھی اسی طرح ہیں۔ انہوںنے کہاکہ پاکستان کی سول بیوروکریسی کا اپنا ایک مائنڈ سیٹ ہے،وہ ان معاملات کو قبول کرنے کے لئے تیار نہیں ۔ا نہوں نے کہا کہ ہم سمجھتے ہیں پاکستان کو منظم اور مضبوط رکھنا ہے تو ضروری ہے پاکستان میں جو قومیں بستی ہیں ان کے وجود کو تسلیم کیا جائے،ان کے وسائل پر ان کے اختیار کو تسلیم کیا جائے،اس ملک کو قانون اور آئین کے دائرے میں چلایا جائے،آج پارلیمنٹ بھی ہے قانون بھی ہے پارلیمانی نظام بھی ہے ،لیکن نہ پریس اور میڈیا آزاد ہے نہ اس کو بولنے کی آزادی ہے،پی ڈی ایم کے بنانے کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ ملک کی ریاست میں اداروں کی مداخلت بند کی جائے اور آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کروائے جائیں،اس ملک میں جتنے بھی مسائل ہیں بشمول بلوچ کے ان کا حل اسی میں ہے،سیاسی جماعتوں کے لوگ سیاسی عمل میں ہوتے ہیں تو ان کی یہی باتیں ہوتی ہیں جب ان کو موقع ملتا ہے تو وہ کمپرومائز کرجاتے ہیں۔

ا نہوںنے کہاکہ بلوچستان کا مسئلہ اتنا پرانا ہوچکا ہے کہ وہ گھمبیر شکل اختیار کرگیا ہے،یہ بلوچستان یہاں تک خود سے نہیں پہنچا ،بلوچ قیادت نے بار بار کوشش کی ہے کہ اسلام آباد کو سمجھائے،بلوچستان کو اس نظر سے نہ دیکھیں کہ وہاں کی اسمبلی میں صرف سولہ نشستیں ہیں،تمام سیاسی جماعتیں ایک ہی نظر سے بلوچستان کو دیکھتی ہیں، دو دن پہلے اسلام آباد میں منڈی لگی اس میں بلوچستان کو بیچا گیا،بلوچستان کے وسائل آپ کو عزیز ہیں لیکن وہاں کے لوگوں کو آپ ماننے کو تیار نہیں ،اٹھارویں ترمیم سے پہلے مائینز اور منرلز صوبوں کی ملکیت تھی،پاکستان کے تمام اداروں میں ٹاپ تیرہ لوگوں میں سے ایک بھی شخصیت بلوچستان سے نہیں ،صوبوں کو یہ اختیار نہیں ہے کہ ان کا بندہ ایس پی تک پروموٹ ہوسکے،ہمارا تقسیم کا فارمولا این ایف سی ہے،پاکستان کے تمام وسائل صوبوں کے ہیں،وسائل کی پہلی تقسیم صوبوں اور فیڈریشن کے درمیان ہے۔

ا نہوںنے کہا کہ پہلے قبائلی اور خاندانی لوگوں کو لیا جاتا تھا ،اب لینڈ مافیا اور ڈرگ مافیا آگئے ہیں،دو ہزار چوبیس کا الیکشن فار سیل تھا،بلوچستان کی صوبائی اسمبلی سے امید رکھنا ہے کہ وہاں ڈویلپمنٹ کررہے ہیں تو غلط فہمی ہے،بلوچستان کا پیسہ غائب ہوجاتا ہے،بلوچستان کا ستر فیصد پیسہ کرپشن کی نذر ہوجاتا ہے،بلوچستان کی تمام نوکریاں فار سیل ہیں۔

ا نہوںنے کہاکہ بلوچستان کی موجودہ حکومت میں مسلم لیگ (ن)کے 19 اور پیپلزپارٹی کے 18 اراکین ہیں،2013 میں مسلم لیگ (ن)کے 26 اراکین تھے لیکن اپنے ہی وزیراعلی کے خلاف تحریک عدم اعتماد لائے ،اس وقت باپ پارٹی کا وجود نہیں تھا لیکن انہی 26 لوگوں نے اس نئی جماعت کے وزیراعلی کو ووٹ دیا،آج بھی موجودہ پیپلزپارٹی کے اراکین کا پیپلزپارٹی سے کوئی تعلق نہیں ،ذاتی مفادات اور اقتدار کی خاطر بلوچستان میں آگ بھڑکائی جا رہی ہے،بلوچستان میں ہر الیکشن میں امیدوار نئی جماعت سے آتے ہیں،بلوچستان میں ہمیشہ حکومت اسلام آباد کی مرضی سے بنتی ہے ،بلوچستان کے نوجوان اس وقت شدید غصے میں ہیں، وہ آج ہماری بات سننے کو بھی تیار نہیں ۔

انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں ترقی نہ ہونے میں مقامی قیادت کو بری الذمہ قرار نہیں دیا جا سکتا لیکن وفاق کا بھی اس میں بڑا کردار ہے ،پہلے سردار اور پھر سردار کے بیٹے کو آگے لایا جاتا تھا لیکن اب صورتحال یہ ہے کہ افغانستان کے ڈرگ ڈیلر کو ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کے خلاف الیکشن لڑوایا گیا ،بلوچستان کی گیس بلوچستان کے شہروں میں نہیں پہنچی لیکن وہ آج ختم ہو رہی ہے ،صرف بلوچستان ہی نہیں بلکہ آج پاکستان کی حالت بھی بہت خراب ہو چکی ہے،کھاد کمپنیوں کو گیس پر سبسڈی دی جاتی ہے لیکن اس کھاد کا استعمال بلوچستاں میں نہیں ،آج ملک میں سکیورٹی نہیں، تعلیم و صحت نہیں ہے، دیوالیہ ہونے کے قریب ہیں۔

سینئر صحافی مجیب الرحمان شامی کا تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ سینیٹر جان محمد بلیدی کی باتوں سے تاریخ کے حساب سے اختلاف ہو سکتا ہے لیکن معاملات کو طاقت کے استعمال سے نہ حل کرنے کی بات ان کی درست ہے،بلوچستان میں مسلح جدوجہد کے دوران پنجابیوں اور خیبرپختونخوا ہ کے لوگوں کو مارا جا رہا ہے،اگر مسلح جدوجہد جاری رہی تو پیچیدگیاں بڑھیں گی،بات چیت کا راستہ اختیار کرنا پڑے گا اور گرفتار لوگوں کے لئے نرمی اختیار کرنا ہو گی،گرفتار خواتین کی رہائی بڑا مسئلہ نہیں ہے ،مسنگ پرسنز کا معاملہ بھی حل کرنا ہو گا ،18ویں ترمیم وسیع تر اتفاق رائے سے ہوئی تو آج بلوچستان کے معاملے پر بھی اسی اتفاق رائے کی ضرورت ہے،نواز شریف، آصف زرداری، بانی پی ٹی آئی سمیت سب کو اکٹھا ہونا ہو گا،الیکشن کا معاملہ سب کے ساتھ ایک جیسا ہے۔