اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 28 اپریل 2025ء) بھارتی وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ نے پیر کی صبح وزیر اعظم نریندر مودی کو جموں و کشمیر کے علاقے پہلگام میں ہلاکت خیز حملے کے بعد کیے گئے حفاظتی اقدامات سے آگاہ کیا۔ وزیر اعظم مودی کی رہائش گاہ پر ہونے والی اس میٹنگ کے دوران قومی سلامتی کے مشیر اجیت ڈووال بھی موجود تھے۔
کشمیر میں پاکستانی، بھارتی فوجیوں کے مابین فائرنگ کا تبادلہ
یہ بریفنگ ایسے وقت پر ہوئی، جب بھارت 22 اپریل کو ہونے والے حملے، جس میں 26 شہری ہلاک ہوئے تھے، کے ذمہ داروں کو سزا دینے کے لیے اپنے آپشنز پر غور کر رہا ہے۔
یہ 2019 کے اس پلوامہ حملے کے بعد سے خطے میں سب سے مہلک حملہ سمجھا جاتا ہے، جس میں نیم فوجی دستوں سی آر پی ایف کے 40 اہلکار ہلاک ہوئے تھے۔(جاری ہے)
وزیر اعظم مودی کی قیادت میں یہ اعلیٰ سطحی اجلاس چیف آف ڈیفنس اسٹاف جنرل انیل چوہان کی جانب سے وزیر دفاع کو اس حملے کے بعد پاکستان کا مقابلہ کرنے کے لیے اہم فوجی فیصلوں کے بارے میں آگاہ کرنے کے ایک دن بعد ہوا۔
’حملہ آوروں کا زمین کے آخری کنارے تک پیچھا کریں گے،‘ مودی
راج ناتھ سنگھ نے تین دن پہلے خطے میں سلامتی کی صورتحال پر تبادلہ خیال کے لیے ایک آل پارٹی میٹنگ کی صدارت بھی کی تھی۔
گو کہ راج ناتھ سنگھ کی مودی سے ملاقات کے بارے میں ابھی تک کوئی سرکاری بیان جاری نہیں کیا گیا، تاہم اتوار کے روز وزیر اعظم مودی نے کہا تھا کہ پہلگام حملے کے ''مجرموں اور سازش کرنے والوں کو سخت ترین جواب دیا جائے گا۔
‘‘نریندر مودی نے ریڈیو پر اپنے ماہانہ 'من کی بات‘ نامی خطاب میں کہا، ''پوری دنیا دہشت گردی کے خلاف ہماری لڑائی میں 140 کروڑ بھارتیوں کے ساتھ کھڑی ہے۔ میں ایک بار پھر متاثرہ خاندانوں کو یقین دلاتا ہوں کہ انہیں انصاف ملے گا، اور انصاف کیا جائے گا۔‘‘
دریں اثنا بھارتی پارلیمان کی قائمہ کمیٹی برائے دفاع کا ایک اجلاس آج پیر کی سہ پہر پارلیمنٹ ہاؤس انیکسی میں ہو رہا ہے۔
اجلاس میں پاکستان کے خلاف جوابی کارروائی کی تیاریوں اور صورتحال پر حکومت کے ردعمل کا مزید جائزہ لیے جانے کی توقع ہے۔پہلگام حملے کے بعد سے نیشنل انویسٹی گیشن ایجنسی (این آئی اے) کی ٹیمیں شواہد جمع کرنے اور تحقیقات کے لیے پہلگام میں تعینات ہیں اور بھارتی فوج بھی ہائی الرٹ پر ہے۔
بھارت کس نوعیت کی فوجی کارروائی کرسکتا ہے؟
مبصرین کا کہنا ہے کہ بھارت پاکستان کے خلاف مختلف آپشنز پر غور کر رہا ہے۔
کانگریس کے رکن پارلیمان اور سابق نائب وزیر خارجہ ششی تھرور نے اس حوالے سے آج اپنے ایک مضمون میں لکھا ہے کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ بھارت پہلگام حملے کا فوجی انتقام لے گا۔سشی تھرور کا کہنا ہے کہ بھارت پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں عسکریت پسندوں کے لانچ پیڈ کو نشانہ بناتے ہوئے لائن آف کنٹرول (ایل او سی) کے پار سرجیکل اسٹرائیک کر سکتا ہے۔
''ہماری فضائیہ پاکستان کے اندر دہشت گردوں کے تربیتی کیمپوں اور انفراسٹرکچر کو نشانہ بنا سکتی ہے۔ پاکستان میں دہشت گردوں کے ہینڈلرز اور ان کے ٹھکانوں پر میزائل حملے کیے جاسکتے ہیں۔ بالاکوٹ سے بڑے فضائی حملے کا بھی امکان ہے۔‘‘بھارت کے سابق اعلیٰ سفارت کار تھرور نے مشورہ دیا، ''بھارت کو عسکریت پسندوں کے رابطوں اور کارروائیوں میں خلل ڈالنے کے لیے سائبر جنگی حربے بھی استعمال کرنا چاہییں۔
اگرچہ پچھلی کارروائیوں میں صرف آرمی اور فضائیہ کی تعیناتی شامل تھی، لیکن بحریہ کے اثاثوں کو بھی آسانی سے متحرک کیا جا سکتا ہے اور بحیرہ عرب کے شمالی حصے میں، بین الاقوامی پانیوں میں تعینات کیا جا سکتا ہے، تاکہ پاکستانی تجارتی جہاز رانی پر دباؤ ڈالا جا سکے، جہاں سے اس ملک کے ساتھ تجارت کے لیے زیادہ انشورنس پریمیم ملتے ہیں۔ پہلے سے ہی زوال کا شکار معیشت پر ضرب لگانے سے پاکستانی اشرافیہ کو تکلیف پہنچے گی۔‘‘ششی تھرور کا کہنا ہے کہ سفارتی طور پر نئی دہلی پاکستان کی فوجی اسٹیبلشمنٹ پر دباؤ ڈالنے کے لیے بین الاقوامی حمایت حاصل کرے گا۔ انہوں نے کہا، ''شناخت شدہ فوجی اہلکاروں کے خلاف پابندیوں کو فروغ دینا آسان نہیں ہو سکتا، لیکن آئی ایس آئی کے دہشت گردی کے گٹھ جوڑ کو عوامی سطح پر بے نقاب کرنے سے بین الاقوامی فورمز پر پاکستان کو سفارتی طور پر الگ تھلگ کیا جا سکتا ہے۔
‘‘ایک درجن سے زائد پاکستانی یوٹیوب چینلز پر پابندی
ایک متعلقہ اقدام میں، بھارت نے پہلگام حملے کے بعد سے غلط معلومات اور اشتعال انگیز مواد پھیلانے کا الزام لگاتے ہوئے 16 پاکستانی یوٹیوب چینلز پر پابندی لگا دی ہے۔ مجموعی طور پر ان چینلز کے 63 ملین سے زیادہ سبسکرائبرز ہیں۔
جن چینلز پر پابندی لگائی گئی ہے، ان میں ڈان، سماء ٹی وی، اے آر وائی نیوز، بول نیوز، رفتار، جیو نیوز اور سنو نیوز کے یوٹیوب چینلز شامل ہیں۔
پاکستانی صحافیوں ارشاد بھٹی، عاصمہ شیرازی، عمر چیمہ اور منیب فاروق کے یوٹیوب چینلز پر بھی پابندی عائد کر دی گئی ہے۔ بھارت نے اپنے ہاں جن دیگر پاکستانی یوٹیوب چینلز پر پابندی لگائی ہے، ان میں دی پاکستان ریفرنس، سماء اسپورٹس اور عزیر کرکٹ بھی شامل ہیں۔اسی دوران بھارتی میڈیا رپورٹوں کے مطبق حکومت نے برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کو اس کی ایک رپورٹ کی شہ سرخی پر متنبہ بھی کیا ہے، جس میں لکھا گیا تھا، ''پاکستان نے کشمیر میں سیاحوں پر مہلک حملے کے بعد بھارتیوں کے ویزے معطل کر دیے۔
‘‘میڈیا رپورٹوں کے مطابق بھارتی وزارت خارجہ کے بیرونی پبلسٹی ڈیپارٹمنٹ نے کہا ہے کہ حملے کے بارے میں بی بی سی کی رپورٹنگ کے حوالے سے اس کے بھارتی سربراہ جیکی مارٹن کو ملک کے ''سخت جذبات‘‘ سے آگاہ کر دیا گیا ہے۔ بی بی سی کو ایک رسمی خط بھیجا گیا ہے، جس میں دہشت گردوں کو عسکریت پسند کہنے پر اعتراض کیا گیا ہے۔ ذرائع نے بتایا کہ حکومت بی بی سی کے علاوہ دیگر غیر ملکی میڈیا اداروں کی رپورٹنگ پر بھی نگاہ رکھے ہوئے ہے۔
ادارت: مقبول ملک