Live Updates

ظ*لاہور تا پنڈی بلٹ ٹرین چلانے کے منصوبے پر عمل درآمد ممکن نہیں: ریلوے حکام

ئ*منصوبے کیلئے کھربوں روپے اور طویل وقت درکار ہوگا یہ عملی طور پر ممکن نہیں، افسران

پیر 19 مئی 2025 20:05

لاہور (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 19 مئی2025ء) لاہور سے راولپنڈی تک پاکستان کی پہلی بلٹ ٹرین چلانے کے منصوبے پر عمل درآمد ممکن نہیں، بلٹ ٹرین کی جگہ ہائی سپیڈ ٹرین چلائی جاسکتی ہے تاہم اس کے لیے بھی اربوں روپے درکار ہوں گے۔ نجی ٹی وی کے مطابق پنجاب حکومت پاکستان ریلویز کی مدد سے بلٹ اور ہائی اسپیڈ ٹرین چلانا چاہتی ہے جبکہ ٹرین کی رفتار بڑھانے اور آدھے گھنٹے سے ایک گھنٹہ وقت کم کرنے کے لیے بھی ریلوے ٹریک اسٹیشن سگنلز ریل گاڑی کی کوچوں سمیت دیگر آلات تبدیل کرنا پڑیں گے۔

ریلوے انتظامیہ نے اس حوالے سے مختلف تجاویز تیار کرلی ہیں۔ وزیر ریلوے محمد حنیف عباسی نے نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہائی اسپیڈ ٹرین کے لیے ہمارے پاس بوگیاں موجود ہیں مگر ریلوے ٹریک اس قابل نہیں مگر یہ منصوبہ مکمل کرنا ہے وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز سے اس سلسلے میں مشاورت ہوئی ہے۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ ہم یہ منصوبہ مکمل کر کے لاہور سے راولپنڈی تک کا سفر اڑھائی گھنٹے تک لے آئیں گے اس پراجیکٹ کے لیے پنجاب حکومت فنڈز فراہم کرے گی۔

ریلوے کے کچھ اعلی افسران کے مطابق پاکستان میں اس رفتار پر چلنے والی ٹرین کے خواب کو حقیقت میں بدلنے کے لیے اربوں کھربوں روپے اور طویل وقت درکار ہوگا یہ منصوبہ عملی طور پر ممکن نہیں، ایک بلٹ ٹرین تو چھوڑیں، معمولی رفتار میں بھی بہتری کے لیے بڑی سرمایہ کاری کی ضرورت ہوگی، لاہور اور راولپنڈی کے درمیان 280 کلومیٹر کا فاصلہ بلٹ ٹرین کے لیے خواب جیسا ہے کیونکہ پاکستان ریلوے کا بنیادی ڈھانچہ پرانا ہے اور دونوں شہروں کے درمیان انفرا اسٹرکچر انتہائی کمزور ہے آئے روز ٹرینیں ڈی ریل ہو رہی ہیں۔

انہوں نے یہ بھی بتایا کہ لاہور سے راولپنڈی کے درمیان پٹڑی سیدھی نہیں بلکہ خم دار اور اتار چڑھاؤ والی ہے، جس کی وجہ سے تیز رفتاری ممکن نہیں مزید یہ کہ راستے میں تین پل بھی ہیں جنہیں بلٹ ٹرین کی رفتار برداشت کرنے کے قابل بنانا ہوگا،۔ ہائی اسپیڈ ریل کے لیے خصوصی ٹریک، گاڑیاں، کوچز، انجن، سگنلنگ، پاور سسٹم، سیکیورٹی اور اسٹیشنز کی بھی ضرورت ہوتی ہے اور یہ سب تقریباً ناممکن ہے کہ آپ پرانے ٹریک پر صرف 200 ارب روپے سے تین سو ارب روپے خرچ کر کے ٹرین کی رفتار کو بڑھاسکیں۔

ریلوے افسران کا کہنا ہے کہ ’’ہمارے پاس ابھی تک ایسے انجن یا کوچز نہیں ہیں جو بلٹ ٹرین کے مطابق ہوں، اِس وقت جو ریلوے کی گرین لائن ٹرین چل رہی ہے وہ لاہور سے راولپنڈی کا 280 کلومیٹر فاصلہ تقریباً چار سے ساڑھے چار گھنٹے میں طے کرتی ہے جبکہ دیگر ٹرینز کو پانچ سے ساڑھے پانچ گھنٹے لگتے ہیں۔ ایک اعلیٰ افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ناممکن کچھ بھی نہیں سب کچھ ہو سکتا ہے مگر اس کے لیے ایک جامع پلان اور کھربوں روپے درکار ہوں گے، بلٹ ٹرین تو امریکا میں بھی نہیں ہے تاہم ہائی اسپیڈ ٹرین چلائی جاسکتی ہے مگر ایم ایل ون کے چکر میں ریلوے انفر اسٹرکچر پر سال 2015ء سے کام ہی نہیں کیا گیا، یہ منصوبہ تاخیر کا شکار ہوچکا ہے اسی منصوبہ کو مکمل کر لیا جائے تو بلٹ ٹرین کی ضرورت ہی نہیں کیونکہ بلٹ ٹرین کے لیے سب کچھ نیا بنانا پڑے گا۔

Live آپریشن بنیان مرصوص سے متعلق تازہ ترین معلومات