کراچی(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 20 مئی2025ء)وزیر بلدیات سندھ سعید غنی اور وزیر ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن سندھ مکیش کمار چاولہ نے کہا ہے کہ سندھ حکومت پنجاب اور بلوچستان میں ایس آئی یو ٹی اور سیلاب متاثرین کے لئے مکانات کی تعمیر وفاقی حکومت کے فنڈز سے اپنے اداروں سے کروا رہے ہے، یہ تاثر سراسر غلط ہے کہ سندھ حکومت اپنے فنڈز سے وہاں کام کروا رہی ہے۔
صوبے میں ٹریفک قوانین پر عمل درآمد کروانے، حادثات کی روک تھام، 33 لاکھ سے زائد موٹر سائیکل سوار کی بغیر لائسنس موٹر سائیکلیں چلانے اور 63 ہزار سے زائد غیر رجسٹرڈ چنکچی رکشوں کی رجسٹریشن سمیت دیگر کے حوالے سے سخت قوانین بنائے جارہے ہیں۔ آئندہ فینسی نمبر پلیٹس، کالے شیشوں اور جعلی سرکاری نمبر پلیٹس استعمال کرنے والوں کے گرد گھیرا تنگ کیا جائے گا جبکہ جو سرکاری گاڑی قوانین کی خلاف ورزی کرتی ہوئے نظر آئی اس کو جرمانہ دگنا کیا جائے گا۔
(جاری ہے)
کراچی میں علامہ رشید ترابی روڈ اور کریم آباد انڈر پاس پر کام کی رفتار کو مزید تیز کیا جارہا ہے اور ان کو درکار مزید فنڈز سندھ کابینہ کی منظوری سے فراہم۔کئے جائیں گے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے منگل کے روز سندھ کابینہ کے اجلاس کے بعد میڈیا کو بریفنگ دیتے ہوئے کیا۔ اس موقع پر ترجمان سندھ حکومت سمیتا افضال بھی ان کے ہمراہ موجود تھی۔
سعید غنی نے کہا کہ سندھ کابینہ نے آج پاک فوج کو خراج تحسین پیش کیا، پاک فوج فضائیہ، بری اور بحری افواج کو خراج تحسین پیش کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ اجلاس میں اجلاس میں وفاقی حکومت کے وومن ایمپاورمنٹ پروگرام سندھ صوبہ سمیت تمام صوبوں کو اس میں شامل ہونا تھا اس کی منظوری دی گئی۔ اجلاس میں صوبے میں نارکوٹکس کنٹرول کے لئے ایکسائیز اینڈ ٹیکسیشن کی اسپیشل عدالتیں قائم کرنی تھیں، عدالتوں کے قیام کی کا ایجنڈا تھا، جن میں 3 کراچی میں، ایک حیدرآباد، لاڑکانہ، میرپور خاص اور سکھر میں قائم ہونا ہے، جس کے تحت صوبے میں سات عدالتیں قائم ہوں گی آج فیصلہ نہیں ہوا۔
اجلاس میں سیپرا کے ایکٹ میں ترامیم کی منظوری دیدی گئی ہے، اجلاس میں سندھ موٹر وہیکل رولز 1969 میں ترامیم کی گئی ہیں۔ اجلاس میں شیمراک رولز اور ایکٹ میں تبدیلی کی سندھ کابینہ نے آج منظوری دی ہے۔ سندھ فارنزک لیب کے ڈی جی اور ایڈیشنل ڈی جی کی مقرری کے لیئے وزیر اعلی اور وزیر داخلہ کو کابینہ نے اختیار دیا ہے کہ وہ ان کی مراعات و دیگر پر فیصلہ کریں گے۔
انہوں نے کہا کہ کابینہ کے اجلاس میں سندھ انفرا اسٹرکچر سیس کا اشیو تھا، جس کے مسئلے کے حل کے لیئے متعلقہ وزیر کو اختیار دیا گیا ہے کہ وہ اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ مٹینگ کرکے جو فیصلہ ہوگا اس کو لاگو کردیا جائے گا۔ ایس آئی یو ٹی کو انفراسٹرکچر سیس سے مستثنیٰ قرار دینا تھا کابینہ نے اس کو منظوری دی دی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اجلاس میں لوکل گورنمنٹ کے تحت دو منصوبوں رشید ترابی روڈ اور کریم آباد انڈر پاس پر کام تیزی سے جاری ہے اس کی اسکیم ریوائس ہوئی ہے 532 ملین رشید ترابی روڈ کے لئے اور ایک ہزار ملین کریم آباد انڈر پاس کے لیئے رقم کی منظوری دی گئی۔
انہوں نے کہا کہ اجلاس میں بورڈ آف ریونیو کا نادرا کے ساتھ معاہدہ ہوا ہے، جس کے تحت بایو میٹرک کو نادرا سے لنک کیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ کابینہ کے اجلاس میں شاہراہ بھٹو کے ساتھ کافی زمین ہے۔ کابینہ نے 88 ایکڑ زمین خصوصی افراد کے لیئے مختص کرنے کی منظوری دی ہے اور اس کے ماسٹر پلان کی منظوری دی گئی ہے۔ اس کو سیپرا سے مستثنیٰ بھی قرار دیا ہے انہوں نے کہا کہ کل میڈیا اور سوشل میڈیا کے دوستوں نے معلومات کی کمی پر سندھ حکومت پر تنقید کی کہ سندھ حکومت کے پی کے میں، پنجاب اور بلوچستان میں پیسہ خرچ کرنے جارہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ایس آئی یو ٹی بنانا ہے گجر خان اور رحیم یار خان میں بنانا چاہتی ہے۔ اس ساتھ ساتھ سیلاب متاثرین ہیں کے پی کے اور بلوچستان میں اس حوالے سے کہا گیا ہے کہ ان کو بھی سندھ حکومت گھر بنا کر دے گی۔ انہوں نے کہا کہ میری میڈیا کے دوستوں سے گزارش ہے کہ وہ جلد بازی نہ کیا کریں اور مکمل معلومات لینے کے بعد کوئی خبر جاری کریں تو یہ بہتر ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ اصل میں یہ ہمارے اور آپ لیئے فخر کی بات ہونی چاہئے کہ سندھ حکومت نے کچھ ایسے ادارے بنائے ہیں جس پر لوگ چاہتے ہیں کہ وہ ادارے دوسرے صوبوں میں بھی کام کریں، انہوں نے کہا کہن ایس آئی یو ٹی جس طرح سندھ میں عوام کی خدمت کررہی ہے، اگر پنجاب میں لوگ چاہتے ہیں تو وہ وہاں بھی بنے تو ہمیں اس پر فخر ہونا چاہیے۔ سعید غنی نے کہا کہ ایس آئی یو ٹی وہاں بن رہا ہے، جو ادیب رضوی صاحب چلاتے ہیں اور وہ وہاں دو اسپتال بنا رہا ہے جس کی لاگت 9 ارب روپے ہوگی، لیکن اس کو 9 ارب روپے سندھ حکومت نہیں بلکہ وفاقی حکومت دے رہی ہے اور سندھ حکومت کو کہا گیا ہے کہ یہ ادارے آپ وہاں بنائیں اور چلائیں۔
اسی طرح بلوچستان 4500 اور خیبر پختون خواہ 2200 گھر سیلاب متاثرین کے لئے بنیں گے اور سندھ حکومت کی کامیابی کو دیکھ کر دونوں صوبے کہتے ہیں کہ سندھ پیپلز ہائوسنگ فار فلڈ افیکٹید ادارہ ہے جس کے کام پر آج تک انگلی نہیں اٹھائی اس کو ہماری کامیابی کو دیکھ کر بلوچستان اور کے پی کہتے ہیں یہ ادارہ ہمارے صوبے میں مکان بنائے۔ انہوں نے کہا کہ خیبر پختون میں مکانات بنیں گے اس کی لاگت ایک ارب روپے ل اور بلوچستان میں 4500 مکانات کے لئے 2 ارب روپے کی رقم بھی وفاقی حکومت ہی دے رہی ہے۔
صرف اس میں سندھ حکومت سے سروس لی جا رہی ہے۔ سعید غنی نے کہا کہ بلاول بھٹو نے وفاقی حکومت سے پیسے لیئے جس پر عمل سندھ حکومت کرے گی۔ انہوں نے کہا کہ کابینہ نے ایک کمیٹی بنائی گئی اس میں وزیر قانون، وزیر ٹرانسپورٹ ٹرانسپورٹ اور وزیر ایکسائیز شامل ہیں، یہ کمیٹی سندھ میں ٹریفک کے قوانین پر عمل درآمد کروانے اور ان کو بہتر بنانے تاکہ ٹریفک حادثات کے حوالے سے بنائی گئی ہے۔
اسی طرح چنکچی رکشے جو خاص طور پر کراچی میں زیادہ چلتے ہیں اس میں سے 37 ہزار رکشے رجسٹرڈ ہیں اندازہ ہے کہ سڑکوں پر ایک لاکھ رکشے چل رہے۔ موٹر سائیکل کی تعداد 45 لاکھ ہیں رجسٹرڈ موٹر سائیکل ہیں اور اس کو چلانے والوں میں صرف 12 لاکھ کے پاس لائسنس ہیں، اس کا مطلب ہے کہ 33 لاکھ کے قریب کے پاس لائسنس نہیں ہے۔اس نظام کو ٹھیک کرنے کے لیئے تجاویز ہیں۔
رکشوں کی مختلف سڑکوں پر بندش سے صورتحال بہتر ہوئی ہے۔ اس سے ٹریفک فلو پر فرق پڑا ہے۔ اس حوالے سے تمام اسٹیک ہولڈرز سے بات کریں گے، رکشہ بنانے والے اور چلانے والوں سب کو اعتماد میں لے کر ٹریفک کے مسائل کو حل کرنا چاہتے ہیں۔ ٹریفک پولیس چالان کا نیا نظام متعارف کروا رہی ہے۔ آگے چل کر ٹریفک کے لیئے کیمرے استعمال ہوں گے، اور ای چالان ہوں گے۔
اس موقع پر مکیش کمار چاولہ نے کہا کہ انفراسٹرکچر سیس کے معاملے کو بھی آئندہ ایک ہفتے میں اس حل کیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ امپورٹر اور ایکسپوٹرز کے سیس کے مسائل پر بھی سندھ حکومت سنجیدہ ہے اور اس مسئلہ کو بھی جلد سے جلد آنے والے بجٹ سے قبل ہی حل کردیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ گاڑیوں پر فینسی نمبر پلیٹس، ٹنٹیڈ گلاسز، غیر قانونی سرکاری نمبر پلیٹس سمیت دیگر اس طرح کی خلاف ورزی پر تو سختی ہوگی اور جرمانے ہوں گے اور اگر وہ گاڑی کسی سرکاری افسر کی ہوگی تو جرمانے ڈبل ہوں گے۔
انہوں نے کہا کہ ہم نہیں چاہتے کہ کوئی سرکاری گاڑی والا جہاں چاہے گاڑی کھڑی کردے۔ ایک سوال کے جواب میں سعید غنی نے کہا کہ شیشے پارلر چلانے کے خلاف ایک ہفتے میں کاروائی ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ ویپ اور شیشہ نواجوان نسل کو متاثر کررہی ہے اور اس میں منشیات استعمال ہو رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ڈرگس مختلف فارم میں آرہی ہیں ان سب کو روکا جائے گا۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ گاڑیوں کی خرید و فروخت کے لئے بائیو میٹرک کو لازمی قرار دیا گیا تو اب تک لاکھوں کی تعداد میں گاڑیاں لوگوں نے اپنے نام پر کروائی ہیں۔ ای چالان کے سوال ہے جواب میں مکیش کمار چاولہ نے کہا کہ جرمانہ وہی بھرے گا جس کے نام پر گاڑی ہوگی اور جب تک یہ جرمانہ ادا نہیں کرے گا نہ اس کی گاڑی ٹرانسفر ہوگی اور ان کی رجسٹریشن بھی سسپنڈ ہوجائے گی۔
تعلیمی اداروں میں منشیات کی روک تھام کے سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ اس سلسلے میں محکمہ تعلیم اور پرائیویٹ اسکولز میں بچوں کے والدین پر مشتمل کمیٹیوں نے کام شروع کردیا ہے اور ان اسکولز میں رینڈم ٹیسٹنگ کا عمل شروع کردیا گیا ہے۔ وزارتوں میں تبدیلی کے سوال کے جواب میں سعید غنی نے کہا کہ یہ اختیار پارٹی قیادت اور وزیر اعلی سندھ کے پاس ہوتا ہے اور وہ جس وزیر کو چاہئیں اس کا محکمہ تبدیل یا اس کو وزارت سے ہٹا دیں۔ ہمیں نہ وزرات دیتے ہوئے بتایا جاتا ہے اور نہ ہٹانے کے وقت بتایا جاتا ہے، البتہ میرے متعلق جو سوشل میڈیا پر خبریں چلائی جارہی ہیں اس پر صرف یہ کہہ سکتا ہوں کہ آئندہ کچھ دنوں تک ایسا نہیں ہورہا ہے۔