کراچی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 22 مئی2025ء)وزیر بلدیات سندھ سعید غنی نے کہا ہے کہ کراچی سمیت سندھ بھر میں غیر قانونی تعمیرات کے خلاف ایکشن لیا جارہا ہے اور مارچ 2024 سے اپریل 2025 تک 2200 سے زائد غیر قانونی تعمیرات کو منہدم کیا گیا ہے۔ اس دوران 46 افسران کو شوکاز، 28 کو معطل، 32 کو رپورٹ، 41 وارننگ جبکہ 52 افسران کو انکوائری کے بعد جرمانے کئے گئے ہیں۔
غیر قانونی تعمیرات کے خلاف محکمہ بلدیات جلد قانون میں ترامیم کرنا چاہتا ہے تاکہ اس کا سدباب ہوسکے اور اس کے لئے تمام اسٹیک ہولڈرز سے مشاورت کے ساتھ ساتھ تجاویز بھی لی جارہی ہیں۔ غیر قانونی تعمیرات میں ملوث افسران کے ساتھ ساتھ اس میں ملوث بلڈرز کے خلاف بھی ایف آئی آر کا اندراج کیا گیا ہے۔ شہریوں سے بارہا اپیل کی گئی ہے اور کی جارہی ہیں کہ وہ کوئی اپارٹمنٹ یا فلیٹ خریدنے سے قبل اس عمارت کی قانونی حیثیت اور ایس بی سی اے سے منظوری اور اس کے قانونی ہونے کی لازمی تصدیق کرلیں تاکہ ان کو کسی قسم کی تکلیف نہ اٹھانی پڑے۔
(جاری ہے)
جلد ہی غیر قانونی تعمیرات کو توڑنے کے لئے تھرڈ پارٹی کو ملوث کیا جارہا ہے تاکہ ایس بی سی اے جو کام نہیں کرتی وہ کریں اور اگر انہوں نے کسی شکایات پر عمل درآمد نہیں کریں گے تو ان کو جرمانہ کیا جاسکے گا۔ بحریہ ٹائون کو یومیہ صرف 2.5 ملین گیلن پانی کی فراہمی کی جارہی ہے، جس کی ہر ماہ کی میٹرز کے تحت ریکوری واٹر اینڈ سیوریج کارپوریشن کو ہوتی ہے جولائی 2024 سے اپریل 2025 تک 173 ملین روپے کی ریکوری بحریہ ٹائون سے ہوئی ہے۔
ان خیالات کا اظہار انہوں نے جمعرات کے روز سندھ اسمبلی میں وقفہ سوالات میں محکمہ بلدیات کے حوالے سے معزز ارکان کے تحریری اور ضمنی سوالات کے جوابات دیتے ہوئے کیا۔ایم کیو ایم کے رکن عبدالباسط کے تحریری اور مختلف ضمنی سوالات کے جواب میں صوبائی وزیر سعید غنی نے کہا کہ جو لوگ غیرقانونی عمارتیں بناتے ہیں وہ رشوت دینے کی شکایت نہیں کرتے، گذشتہ ای سال کے دوران 46 افسران کو شوکاز، 28 کو معطل، 32 کو رپورٹ، 41 وارننگ جبکہ 52 افسران کو انکوائری کے بعد جرمانے کئے گئے ہیں۔
ایس بی اے کی جانب سے مارچ 2024 سے اپریل 2025 تک 2200 سے زائد غیر قانونی تعمیرات کو منہدم کیا گیا ہے۔ تاہم اس کے باوجود بھی میں ذاتی طور پر بھی شہر میں غیر قانونی عمارتوں کیخلاف کاروائیوں سے میں مطمئین نہیں ہوں۔ انہوں نے کہا کہ سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کے قوانین میں ترمیم لاکر مزید قوانین کو سخت کریں گے۔ انہوں نے ایوان کو بتایا کہ غیرقانونی تعمیرات کیخلاف حالیہ دنوں تین اجلاس کئے ہیں۔
ضلعی انتظامیہ اور ٹی ایم سی کو بھی غیرقانونی تعمیرات کیخلاف کارروائی کا اختیار دے رہے ہیں۔ رئیل اسٹیٹ کے ایجنٹس کو رجسٹر کرکے انہیں پابند کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ ساری غیرقانونی عمارتوں کو منہدم کرنے کی صلاحیت ایس بی سی اے میں نہیں ہے۔ عمارتوں کو منہدم کرنے کیلئے اخبارات میں اشتہار دیکر آئوٹ سورس کریں گے۔ سعید غنی نے کہا کہ اس وقت ہم قانون کے دائرے میں رہ کر غیر قانونی تعمیرات کے خلاف اس پیمانے پر کارروائیاں نہیں کرپارہے ہیں جس پیمانے پر وہ تعمیر ہورہی ہیں، اس کے باوجود بھی ہم تمام دستیاب وسائل سے بڑھ کر ان کے خلاف کارروائی کررہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اس لئے ہم قوانین میں ترامیم لا رہے ہیں اور اس میں مجھے بالخصوص ایوان میں اپوزیشن کے دوستوں کی گائیڈ لائن بھی ملے تو بہتر ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ ماضی میں ڈسٹرکٹ ایڈمنسٹریشن کا غیر قانونی تعمیرات کے خلاف کارروائیوں میں کوئی موثر کردار نہیں رہا ہے۔ البتہ اب ہم۔نے نہ صرف ڈسٹرکٹ ایڈمنسٹریشن بلکہ ٹائون میونسپل کارپوریشن کو بھی اختیار دیا ہے کہ وہ ان غیرقانونی تعمیرات کے خلاف کاروائی میں اپنا کردار ادا کریں ساتھ ہی ہم نے رئیل اسٹیٹ کے دوستوں کی ایسوسی ایشنز کو بھی ملوث کررہے ہیں کیونکہ اس طرح کی غیر قانونی عمارتوں میں خرید و فروخت انہی رئیل اسٹیٹ کی معرفت کرتے ہیں۔
ہم رئیل اسٹیٹ کی بھی رجسٹریشن کررہے ہیں تاکہ ان کو بھی قانون کے دائرے میں لایا جائے اور اگر وہ اس طرح کی غیرقانونی تعمیرات کی فروخت میں ملوث ہوں تو ان کے خلاف بھی کارروائی کی جاسکے۔ سعید غنی نے کہا کہ ہم نے بلڈنگ انسپکٹرز، سنئیر بلڈنگ انسپکٹرز، ڈپٹی ڈائریکٹرز اور ڈائریکٹرز سب کو پابند کیا ہے وہ اپنے اپنے ایریا کی ماہانہ رپورٹ اپنے سے اوپر کے افسران تک جمع کروائیں کہ ان کے علاقے میں کسی قسم کہ کوئی غیر قانونی تعمیرات نہیں ہورہی ہے اور اگر اس کے علاقے میں کوئی غیر قانونی تعمیرات ہوئی تو اس کے خلاف کارروائی کی جاسکے۔
ایم۔کیو ایم کی خاتون رکن بلقیس مختار کے ضمنی سوال کے جواب میں سعید غنی نے کہا کہ اب تک ایس بی سی اے کے 12 افسران کے خلاف ایف آئی آر کا اندراج کیا ہے اور اسی طرح کئی غیر قانونی عمارتوں کے مالکان کے خلاف بھی ایف آئی آر کا اندراج کرایا ہے۔ ملازمین کے خلاف کارروائیاں قانون کے دائرے میں رہ کر محکمہ ذاتی ہی ہوسکتی ہے، اس قوانین میں بھی ترامیم کی جارہی ہیں تاکہ ان کے خلاف بھی سخت سے سخت کارروائی عمل میں لائی جاسکے۔
ایک اور ضمنی سوال کے جواب میں سعید غنی نے کہا کہ غیرقانونی عمارت کی تعمیرات کرنے والا بلڈرز مافیا جلد سے جلد غیر معیاری میٹیریل سے عمارت کو تعمیر کرکے فروخت کرکے بھاگ جاتا ہے اور اس میں لوگ آباد ہوجاتے ہیں۔پھر اس بلڈر اور ایس بی سی اے دونوں کی جان چھوٹ جاتی ہے اور جو لوگ اپنی زندگی بھر کی جمع پونجی سے یہ فلیٹ خریدتے ہیں ان پر ہمیشہ تلوار لٹکتی رہتی ہے۔
سعید غنی نے کہا کہ قانونی طور پر عمارت ایس بی سی اے کی باقاعدہ منظوری سے جبکہ غیر قانونی عمارت کسی قسم کی منظوری کے بغیر بنالی جاتی ہے۔ رئیل اسٹیٹ کے دوستوں کو اس میں شامل کرنے کا اصل مقصد بھی یہی ہے کہ وہ اس طرح کی غیر قانونی عمارتوں میں لوگوں کو گھر نہ ڈلوائیں اور ان عمارتوں کی حوصلہ شکنی ہو۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے بارہا الیکٹرانک و پرنٹ میڈیا اور سوشل میڈیا کے ذریعے آگاہی مہم چلائی ہے کہ لوگ اپنی زندگی بھر کی جمع پونجی سے گھر خریدنے سے قبل اس بات کی تصدیق کرلیں کہ وہ جہاں فلیٹ یا اپارٹمنٹ خرید رہے ہیں وہ عمارت ایس بی سی اے سے منظوری شدہ ہے یا نہیں ہے۔
شہریوں کو اس طرح کی آگاہی کے لئے تمام معزز ارکان کو بھی اپنا بھرپور کردار ادا کرنا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ ہم واٹر، سیوریج، بجلی اور گیس فراہم کرنے والی یوٹیلیٹی فراہم کرنے والے اداروں کو بھی پابند کرنے جارہے ہیں کہ وہ اس طرح کی کسی غیر قانونی عمارتوں کو یوٹیلیٹی کی ہرگز فراہمی نہ کریں اور اس حوالے سے قوانین میں ترامیم بھی کررہے ہیں۔
ایک اور سوال پر انہوں نے کہا کہ غیرقانونی تعمیرات کیخلاف جو قوانین میں ترامیم لانے جارہے ہیں اس میں مجھے تمام معزز ممبران اپنی تجاویز دیں تاکہ سخت قوانین بنا کر ان کے خلاف سخت کارروائی عمل میں لائی جائے۔ ایک اور ضمنی سوال کے جواب میں سعید غنی نے کہا کہ صرف ڈسٹرکٹ سینٹرل ہی نہیں بلکہ کم و بیش تمام علاقوں میں کئی دہائیوں میں یہ تباہی ہوئی ہے اور معزز رکن جس جماعت سے تعلق رکھتے ہیں یہ گند ان کی حکومت میں بھی عروج پر رہا ہے۔
ایک اور ضمنی سوال کے جواب میں سعید غنی نے کہا کہ میری ایس بی سی اے کے تمام افسران کو خصوصی ہدایات ہیں کہ اگر کوئی میرا نام یا پارٹی کا نام لے تو اس کے خلاف پہلے کارروائی عمل میں لائی جائے۔ ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ ہماری موبائل پر آن لائن کمپلین کی ایپ کے علاوہ ای میل اور کمپلین سیل بھی موجود ہے اور اب تک اس پر 670 شہری آن لائن شکایات کر چکے ہیں۔
ایم کیو ایم کی خاتون رکن قرعت العین کے بحریہ ٹائون میں پانی کی فراہمی کے سوال اور اس کے ضمنی سوالات کے جواب میں صوبائی وزیر سعید غنی نے کہا کہ بحریہ ٹائون کو پانی کراچی سے ہی ملتا ہے، سیوریج کی مد میں بحریہ ٹائون کو پئسے دینے تھے وہ معاملہ ابھی کورٹ میں ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت کراچی کو دھابیجی سے 550 اور حب سے 100 ایم جی ڈی پانی فراہم کیا جاتا ہے جبکہ بحریہ ٹائون کو دھابیجی کی لائن سے 2 کنکشن 6 انچ ڈایا کے فراہم کئے گئے ہیں، جس سے ان کو یومیہ 2.5 ایم جی ڈی پانی فراہم کیا جاتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ بحریہ ٹائون میں رہنے والے کراچی کے ہی لوگ ہیں اور یہ کراچی کا ہی حصہ ہے، جس طرح معزز ارکان یہ تاثر دینے کی کوشش کررہے ہیں کہ بحریہ ٹائون کراچی کا حصہ یا وہاں رہنے والے کراچی کے لوگ نہیں ہے وہ غلط تاثر ہے، انہوں نے کہا کہ بحریہ ٹائون جتنا پانی استعمال کرتا ہے، اس سے کراچی کے پانی پر کوئی خاص فرق نہیں پڑے گا۔ ایم کیو ایم کے رکن اعجاز الحق کے ضمنی سوال کے جواب میں سعید غنی نے کہا کہ غیرقانونی واٹر کنیکشن کے خلاف جو کوئی کارروائی ممکن ہوگی تو میں ضرور ایکشن لوں گا۔
ایم کیو ایم کے طحہ احمد خان کی جانب سے ایوان میں ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹ میں محکمہ بلدیات کی بدترین کارکردگی کی رپورٹ اشاعت کے حوالے سے بات پر وزیر بلدیات سندھ سعید غنی نے کہا کہ اس طرح کی رپورٹ میں جو سروے ہوتے ہیں وہ لوگوں کی حقیقی رائے کی نمائندگی نہیں کرتے۔ ڈھائی کروڑ کی آبادی میں دو ہزار افراد کی رائے کو سروے کا نام دے کر اس بنیاد پر حتمی رائے نہیں قائم کرنی چاہیے۔
یہ ساری ہوائی باتیں ہوتی ہیں۔ اس طرح کے سروے اور رپورٹ کو کم از کم میں تو نہیں مانتا۔ ایم کیو ایم۔کے رکن محمد دانیال کی جانب سے کراچی کے پچاس فیصد سے بھی کم لوگوں کو پانی کی فراہمی ہونا اور اس میں موٹروے پر ہائوسنگ سوسائٹیز کو پانی کی فراہمی کے سوال پر سعید غنی نے کہا کہ بحریہ کے رہائشی بھی کراچی کے لوگ ہیں۔ان کو بھی پانی ملنا چاہیے۔
بنیادی ضروریات پوری کرنا حکومت کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ ہمیں لوگوں کو قانونی طور پر سپورٹ کرنا ہوگا۔ غیرقانونی تعمیرات کو روکنا ہوگا۔ نئی آبادیاں ہونی چاہیے۔ انجینئر محمد عثمان کے سوال پر سعید غنی نے کہا کہ کراچی کو جتنے پانی کی ضرورت ہے اتنا میسر نہیں ہے۔ کوئی مسئلہ ہوجاتا ہے تو شہریوں کو تکلیف دیکھنی پڑتی ہے۔ اکثر علاقوں میں لوگوں کو ضرورت سے کم پانی ملتا ہے۔ ہم اس حوالے سے اقدامات کررہے ہیں، حب پر کینالز کا کام تیزی سے جاری ہے اور انشا اللہ اس سال کے آخر تک وہاں سے پانی کی زیادہ فراہمی ممکن ہوجائے گی، اس کے علاوہ کے فور منصوبے پر بھی آئندہ سال مکمل ہونے کی توقع ہے، جس کے بعد پانی کی فراہمی میں بہتری کی امید ہے۔