Live Updates

خیبر پختونخوا کے پارلیمنٹرینز سے ماں اور بچوں کی ایڈوانس غذائیت کے بارے میں لوگوں میں شعور اجاگر کرنے کا مطالبہ

جمعہ 23 مئی 2025 21:30

پشاور (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 23 مئی2025ء) بچوں میں سٹنٹنگ (نشوونما کا رک جانا) صحت کا ایک سنگین مسئلہ ہے، خیبر پختونخوا کے پارلیمنٹیرینز ماں اور بچوں کی صحت کےلیے انتہائی اہم جدید غذائیت کی اہمیت کے بارے میں آگاہی پیدا کریں۔ ان خیالات کا اظہار مختلف مقررین نے جمعہ کو پشاور کے ایک مقامی ہوٹل میں ماں اور بچوں کی غذائیت اور بریسٹ ملک کی متبادل مارکیٹنگ کے بین الاقوامی کوڈ کے نفاذ کے حوالے سے نیوٹریشن ایڈوکیسی مباحثہ کے دوران کیا جس کا اہتمام سیو دی چلڈرن نے یونیسیف اور خیبر پختونخوا اسمبلی کے تعاون سے کیا۔

اس موقع پر خیبر پختونخوا اسمبلی کے سپیکر بابر سلیم سواتی، ایم پی اے نیلوفر زیب، شہلا بانو، تاج محمد، میاں شرافت علی، رنگریز خان، احمد کنڈی، محمد عارف، انور خان اور دیگر بھی موجود تھے۔

(جاری ہے)

مقررین نے کہا کہ پاکستان میں 40 فیصد بچوں میں سٹنٹنگ کو نوجوان نسل کے مستقبل کےلیے بڑھتا ہوا خطرہ قرار دیا گیا ہے۔ انہوں نے بہتر ماں اور بچوں کی صحت کےلیے بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری اور جدید غذائیت کے بارے میں ایک مضبوط آگاہی مہم چلانے کا مطالبہ کیا۔

ماہرین کا کہنا تھا کہ غربت، سماجی و اقتصادی عدم مساوات اور دائمی غذائی قلت کی وجہ سے یہ مسئلہ اب پانچ سال سے کم عمر کے تقریباً 40 فیصد بچوں کو متاثر کر رہا ہے۔ پولیو یا ہیپاٹائٹس سے زیادہ وسیع سٹنٹنگ محض صحت کا مسئلہ نہیں بلکہ یہ ایک خاموش ہنگامی صورتحال ہے جس کے قومی ترقی پر گہرے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ یہ اس وقت ہوتا ہے جب بچوں کو ان کے ابتدائی سالوں میں ضروری غذائیت، صاف پانی اور صحت کی دیکھ بھال سے محروم رکھا جاتا ہے۔

سٹنٹنگ دماغی نشوونما میں بھی رکاوٹ ڈالتی ہے جس سے تعلیمی کارکردگی خراب ہوتی ہے، اقتصادی پیداواری صلاحیت کم ہوتی ہے اور بیماریوں کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ مباحثہ میں صوبائی وزراء، ماہرین صحت، میڈیا کے نمائندوں اور این جی او کے عہدیداروں نے شرکت کی۔ ماہرین صحت نے اس عوامی صحت کے چیلنج کا مقابلہ کرنے کی فوری ضرورت پر زور دیا۔ سیو دی چلڈرن کے نیشنل پراجیکٹ منیجر اعظم کیانی نے نیشنل نیوٹریشن سروے 2018 کے پریشان کن اعدادوشمار کو اجاگر کیا اور کہا کہ خیبر پختونخوا میں پانچ سال سے کم عمر کے 40 فیصد بچے سٹنٹڈ ہیں، 15 فیصد ویسٹڈ، 23.1 فیصد کم وزن اور 12.9 فیصد زیادہ وزن والے ہیں۔

56 فیصد سے زیادہ بچے انیمیا کا شکار ہیں اور صرف 60.8 فیصد بچوں کو صرف ماں کا دودھ پلایا جاتا ہے جو نسبتاً ایک مثبت عدد ہے۔ انہوں نے کہا کہ "خواتین اور نوعمروں کی غذائی حیثیت بھی اتنی ہی تشویشناک ہے، تقریباً 38.2 فیصد خواتین انیمیا کا شکار ہیں، 47.7 فیصد میں وٹامن اے کی کمی ہے اور حیران کن طور پر 76.4 فیصد میں وٹامن ڈی کی کمی ہے۔ نوعمر لڑکیوں میں 56.2 فیصد انیمیا کا شکار ہیں، 15.3 فیصد زیادہ وزن والی ہیں اور 8.5 فیصد موٹاپے کا شکار ہیں۔

سیو دی چلڈرن کی نیشنل پراجیکٹ کوآرڈینیٹر شیزا حمید نے پہلے چھ ماہ تک خصوصی طور پر ماں کا دودھ پلانے کی اہمیت کو اجاگر کیا۔ انہوں نے فارمولا دودھ کی جارحانہ مارکیٹنگ کے خلاف خبردار کیا اور دودھ پلانے کے فروغ کے قوانین کو سختی سے نافذ کرنے کا مطالبہ کیا۔انہوں نے کہا کہ غذائی قلت کی وجہ سے پاکستان کو سالانہ اندازاً 7.6 بلین ڈالر کا نقصان ہوتا ہے جو اس کی جی ڈی پی کا تقریباً 3 فیصد ہے۔

انہوں نے کہا کہ عالمی بریسٹ ملک متبادل صنعت کی مالیت 55 ارب ڈالر ہے۔ ڈائریکٹوریٹ جنرل ہیلتھ سروسز میں نیوٹریشن کے ڈائریکٹر ڈاکٹر فضل مجید نے غذائی قلت کو غربت، بے روزگاری اور موسمیاتی تبدیلی سے جوڑا۔ انہوں نے کہا کہ خیبر پختونخوا نے 2015 میں دودھ پلانے کے تحفظ کا ایکٹ نافذ کیا تھا اور بے بی فرینڈلی ہسپتال انیشیٹو کے تحت 22 بڑے ہسپتالوں اور باچا خان انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر دودھ پلانے کے لیے کارنر قائم کیے تھے۔

انہوں نے خبردار کیا کہ آج سٹنٹڈ بچے کا مطلب کل کی ایک سٹنٹڈ معیشت ہے، ہم صرف چھوٹے قد کی بات نہیں کر رہے، ہم انسانی صلاحیت کے ضائع ہونے کی بات کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ بحران دیہی اور پسماندہ اضلاع میں سب سے زیادہ شدید ہے جہاں سٹنٹنگ کی شرح 50 فیصد سے زیادہ ہے۔ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام (بی آئی ایس پی) کے تحت 'نشوونما مراکز جیسی کوششیں پسماندہ افراد میں متوازن غذائیت کی حوصلہ افزائی کے لیے مالی مدد فراہم کر رہی ہیں۔

تاہم احساس نیوٹریشن پروگرام اور وسیع آگاہی مہمات جیسی کوششوں کے باوجود پیش رفت سست ہے. ماہرین کا خیال ہے کہ صرف ایک کثیر شعبہ جاتی حکمت عملی جس میں خوراک کی حفاظت، ماں کی صحت، صفائی، تعلیم، اور غربت میں کمی شامل ہے، ہی اس مسئلے کو مؤثر طریقے سے حل کر سکتی ہے۔ یونیسیف اور ورلڈ بینک سمیت بین الاقوامی ایجنسیوں نے خبردار کیا ہے کہ فوری کارروائی کے بغیر پاکستان کو بڑے پیمانے پر اقتصادی نقصانات اور بڑھتی ہوئی سماجی عدم مساوات کا سامنا کرنا پڑے گا۔

ڈاکٹر مجید نے کہا کہ یہ صرف بچوں کو کھانا کھلانے کا معاملہ نہیں ہے بلکہ ملک کے مستقبل کی حفاظت کا بھی معاملہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کے مستقبل میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کا یہ صحیح وقت ہے، کوئی قوم اس وقت ترقی نہیں کر سکتی جب اس کے تقریباً آدھے بچے اپنی مکمل صلاحیت تک پہنچنے کے موقع سے محروم ہوں۔ مباحثہ کے شرکاء نے قانون سازوں اور میڈیا پر زور دیا کہ وہ نیوز فیچرز، تعلیمی پروگرامنگ اور ایڈوکیسی کے ذریعے عوامی آگاہی بڑھانے میں فعال کردار ادا کریں، بچوں میں سٹنٹنگ کو قومی ترجیح بنانا ضروری ہے، ملک کی معیشت کی مضبوطی بالآخر اس کے سب سے کم عمر شہریوں کی صحت اور صلاحیت پر منحصر ہوگی۔
Live آپریشن بنیان مرصوص سے متعلق تازہ ترین معلومات