اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 25 مئی 2025ء) کییف سے اتوار 25 مئی کو موصولہ رپورٹوں کے مطابق روس نے یوکرین پر حملوں کے لیے ہفتے اور اتوار کی درمیانی شب 69 راکٹ فائر کیے اور ساتھ ہی مختلف عسکری اہداف کو نشانہ بنانے کے لیے 298 جنگی ڈرونز بھی بھیجے۔
کییف پر روسی میزائل اور ڈرون حملے، 15 افراد زخمی: یوکرینی حکام
ماہرین ماسکو کے اس اقدام کو یوکرین کے خلاف جنگ میں حملہ آور ڈرونز کی پوری ایک فلیٹ کو بیک وقت استعمال کرنے کی حکمت عملی کا نام دے رہے ہیں۔
آج تک کا سب سے بڑا جنگی حملہ
یوکرینی دارالحکومت سے ملنے والی رپورٹوں میں بتایا گیا ہے کہ کییف حکومت کے مطابق جتنے بڑے پیمانے پر ماسکو نے گزشتہ رات یوکرین کو جنگی حملوں کا نشانہ بنانے کی کوشش کی، وہ گزشتہ تین سال سے بھی زائد عرصے سے جاری اس جنگ میں ماسکو کی طرف کیا گیا آج تک کا سب سے بڑا جنگی حملہ تھا۔
(جاری ہے)
پوٹن کی یوکرین سے براہ راست مذاکرات کی تجویز، سیزفائر کے مطالبے پر خاموشی
اس دوران یوکرین نے اپنے دفاعی نظام کو استعمال کرتے ہوئے اس حملے کو ناکام بنانے کی جو کوشش کی، اسے بھی ریکارڈ حد تک بڑی کاوش قرار دیا جا رہا ہے۔
یوکرینی فوجی ذرائع کے مطابق ماسکو کی طرف سے فائر کردہ میزائلوں اور حملوں کے لیے بھیجے گئے جنگی ڈرونز میں سے 45 راکٹوں اور 266 ڈرونز کو فضا میں ہی تباہ کر دیا گیا۔
کم از کم بارہ افراد ہلاک
یوکرینی فضائیہ کی طرف سے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ٹیلیگرام پر ایک پیغام میں کہا گیا کہ ان وسیع تر روسی حملوں سے یوکرین کے وسیع تر علاقے متاثر ہوئے اور مختلف مقامات پر مجموعی طور پر کم از کم 12 افراد مارے گئے۔
یوکرینی ایئر فورس نے بتایا کہ ان روسی حملوں سے صرف دارالحکومت کییف ہی متاثر نہیں ہوا بلکہ یہ جنگی حملے کم از کم 22 مختلف مقامات پر کیے گئے۔
یوکرین: جنگ بندی مذاکرات 'فوری' شروع ہوں گے، ٹرمپ
یوکرینی فضائیہ نے ٹیلیگرام پر اپنی پوسٹ میں بتایا، ''ان میزائل اور ڈرون حملوں سے 22 مقامات کو نشانہ بنانے کی کوشش کی گئی جبکہ فضا میں ہی تباہ کر دیے گئے ایسے راکٹوں اور ڈرونز کے ملبے جن مقامات پر گرے، ان کی تعداد بھی 15 بنتی ہے۔
ان حملوں میں جو 12 افراد ہلاک ہوئے، ان میں تین کم عمر یوکرینی بچے بھی شامل ہیں۔
یوکرینی صدر کا امریکہ سے مطالبہ
یوکرینی صدر وولودیمیر زیلنسکی نے اپنے ملک پر ان تازہ لیکن وسیع تر روسی فضائی حملوں کو ''دہشت گردانہ حملوں‘‘ کا نام دیا ہے اور ساتھ ہی امریکہ سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ ان تازہ روسی حملوں کا نوٹس لے اور اس بارے میں کچھ کہے بھی۔
صدر زیلنسکی نے اس بارے میں امریکہ سے مطالبہ اس لیے کیا کہ صدر ٹرمپ کی انتظامیہ اب تک نہ صرف یوکرین کے ساتھ قیمتی معدنیات کی کان کنی سے متعلق ایک بہت بڑا معاہدہ کر چکی ہے بلکہ ساتھ ہی صدر ڈونلڈ ٹرمپ روس اور یوکرین کو جلد از جلد جنگ بندی پر آمادہ کرنے کی کوشش بھی کر رہے ہیں۔
صدر ٹرمپ کی جنگ بندی سے متعلق ان کوششوں کا تاحال کوئی فیصلہ کن نتیجہ برآمد نہیں ہوا جبکہ یوکرین کے اتحادی کئی مغربی ممالک، خاص کر یورپی ریاستوں کا کہنا ہے کہ جنگ بندی کوششوں کی آڑ میں روسی صدر پوٹن اپنے لیے صرف زیادہ سے زیادہ وقت حاصل کرنے کی کوششوں میں ہیں۔
جنگی قیدیوں کا سب سے بڑا تبادلہ مکمل
روس کے یوکرین پر تازہ ترین جنگی حملوں کے باوجود آج اتوار 25 مئی کے روز دونوں ممالک کے مابین ایک دوسرے کے جنگی قیدیوں کا آج تک کا سب سے بڑا تبادلہ مکمل ہو گیا۔
یہ تبادلہ تین مراحل میں ہونا تھا اور آج تیسرے مرحلے میں دونوں حریف ممالک نے ایک دوسرے کے مزید سینکڑوں جنگی قیدی رہا کر دیے، جن میں فوجی بھی شامل تھے اور عام شہری بھی۔
جرمن چانسلر کا اپنی فوج کو ’یورپ کی مضبوط ترین روایتی فوج‘ بنانے کا عزم
روس اور یوکرین کے مابین رواں ماہ کے وسط میں ترکی میں جو اولین براہ راست مذاکرات ہوئے تھے، ان میں کوئی فائر بندی تو طے نہیں پا سکی تھی، تاہم یہ اتفاق رائے ہو گیا تھا کہ دونوں ایک دوسرے کے ایک ایک ہزار جنگی قیدی رہا کر دیں گے۔
اس تبادلے کا آغاز جمعے کے روز ہوا تھا، جو ہفتے کو بھی جاری رہا اور آج اتوار کو مکمل ہو گیا۔
جمعے کو دونوں ممالک نے ہر ایک کے 390 قیدی رہا کیے تھے، ہفتے کو ہر ایک نے 307 قیدیوں کو رہا کیا اور آج اتوار کے روز ہر طرف سے 303 قیدیوں کو رہا کیا گیا اور یہ معاہدہ عملاﹰ مکمل ہو گیا۔اطراف نے ایک دوسرے کے جو ایک ایک ہزار جنگی قیدی رہا کیے ہیں، ان میں سے ہر طرف سے 880 فوجی تھے اور 120 عام شہری، جو دوران جنگ گرفتاری کے بعد جنگی قیدی بنا لیے گئے تھے۔
ادارت: امتیاز احمد