نواز شریف ن لیگ اور پیپلز پارٹی کے اتحاد کے دوران بھی صدارت کے خواہش مند تھے، فرحت اللہ بابر کا اپنی کتاب میں انکشاف

ایک غیر رسمی گفتگو میں نواز شریف نے آصف زرداری سے کہا کہ میری پارٹی سمجھتی ہے کہ مجھے صدر بننا چاہیے اس پر آصف زرداری نے مسکراتے ہوئے جواب دیا کہ میری پارٹی بھی سمجھتی ہے کہ مجھے صدر بننا چاہیے اس کے بعد یہ بحث وہیں ختم ہوگئی

Faisal Alvi فیصل علوی منگل 27 مئی 2025 16:15

نواز شریف ن لیگ اور پیپلز پارٹی کے اتحاد کے دوران بھی صدارت کے خواہش ..
اسلام آباد(اردوپوائنٹ اخبار تازہ ترین۔27 مئی 2025)پاکستان پیپلزپارٹی کے رہنماء فرحت اللہ بابر نے اپنی لکھی گئی کتاب ”دی زرداری پریزیڈنسی“ میں انکشاف کیا ہے کہ نواز شریف ن لیگ اور پیپلز پارٹی کے اتحاد کے دوران بھی صدارت کے خواہش مند تھے،ایک غیر رسمی گفتگو میں نواز شریف نے آصف زرداری سے کہا کہ میری پارٹی سمجھتی ہے کہ مجھے صدر بننا چاہیے، اس پر آصف زرداری نے مسکراتے ہوئے جواب دیا کہ میری پارٹی بھی سمجھتی ہے کہ مجھے صدر بننا چاہیے اس کے بعد یہ بحث وہیں ختم ہوگئی۔

رہنماءپیپلزپارٹی فرحت اللہ بابر نے یہ کتاب صدر زرداری کی پہلی مدت (2008 تا 2013) کے دوران بحیثیت صدارتی ترجمان حالات و واقعات کا مشاہدہ کرنے کے بعد لکھی ہے۔فرحت اللہ بابر کا کہنا ہے کہ صدر آصف علی زرداری نے جنرل اشفاق پرویز کیانی کی رضا مندی حاصل کرنے کے بعد جنرل پرویز مشرف کو مستعفی ہونے پر مجبور کیا۔

(جاری ہے)

کتاب میں بتایا گیا ہے کہ آصف علی زرداری نے پرویز مشرف کو معزول کرنے کے حوالے سے پہلے تو جنرل کیانی کے ممکنہ رد عمل کا اندازہ لگایا۔

اس صورتحال پر جنرل کیانی نے کوئی اعتراض نہ کیا حتیٰ کہ آفتاب شعبان میرانی کو اگلا صدر بنانے کی تجویز تک دیدی۔ فرحت اللہ بابر نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ آصف علی زرداری نے اپنے بااعتماد پارٹی ارکان کو صوبائی اسمبلیوں میں پرویز مشرف کے مواخذے کا مطالبہ کرنے کی قراردادیں پیش کرنے کی ہدایت کی اور میجر جنرل (ر) محمود علی درانی کے ذریعے ایک پیغام پہنچایا جس میں پرویز مشرف پر زور دیا گیا کہ وہ مستعفی ہو جائیں یا مواخذے کا سامنا کریں پہلے تو پرویز مشرف رضامند نہ ہوئے لیکن بلآخر چند ہفتوں بعد مستعفی ہوگئے۔

اپنی یادداشت میں فرحت اللہ بابر نے یہ انکشاف بھی کیا کہ کس طرح ایوان صدر کے باہر ٹرپل ون بریگیڈ تعینات کرکے دباﺅ ڈالا گیا تاکہ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کو بحال کیا جا سکے۔فرحت اللہ بابر کے مطابق بینظیر بھٹو اور نہ ہی آصف زرداری نے جسٹس افتخار چوہدری کی حمایت میں کسی طرح کا اظہار خیال کیا۔ زرداری کی رائے تھی کہ جسٹس چوہدری آزادی کی آڑ میں دیگر مفادات کی تکمیل کیلئے بھی کام کرتے تھے۔

چوہدری کی بحالی کی وکالت کرتے ہوئے لاہور سے لانگ مارچ کے دوران زرداری کو اپنے وزراءحتیٰ کہ وزیراعظم کے دباﺅ کا سامنا کرنا پڑا تاہم زرداری شروع میں ثابت قدم رہے۔ٹرپل ون بریگیڈ کی تعیناتی ایوان صدر کے اندر اس رات ہوئی جس رات مارچ اسلام آباد کے قریب پہنچا۔فرحت اللہ بابر نے لکھا کہ اس ممکنہ چال کی وجہ سے شاید فوجی قبضے کا تاثر پیدا کیا ہو لیکن ایسا بالکل نہیں تھا۔