اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 08 جون 2025ء) جب حکمراں اقتدار حاصل کر لیتے ہیں تو اُن کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ مرنے کے بعد بھی زندہ رہیں۔ جہاں وہ اپنی یادگاریں تعمیر کراتے ہیں، وہیں وہ اپنے مجسمے تیار کرا کر پبلک مقامات پر نصب کرا دیتے ہیں تا کہ وہاں سے گزرنے والے لوگ ان کو دیکھیں اور ان کو یاد کریں۔ لیکن ان مجسموں کی یادیں اور انجام اکثر خوشگوار نہیں ہوا اور ان کا وجود عام لوگوں کے لیے کبھی کبھی نفرت کا باعث بھی ہوا۔
جب شہریوں کے مسائل بڑھ جائیں تو لوگ اپنے غم و غصّے کا اظہار ان مجسموں کو توڑ کر کرتے ہیں۔ماضی میں جب ایک مرتبہ روم کے شہر میں مہنگائی ہوئی، تو شہریوں نے اس کے خلاف مظاہرہ کیا۔یہ احتجاج اتنا شدید تھا کہ شہریوں نے رومی رہنماؤں کے مجسمے، جن میں POMPEY کا مجسمہ بھی تھا ان سب کو پاش پاش کر دیا تھا۔
(جاری ہے)
پومپے ایک مشہور رومی جرنیل اور سیاستدان تھے، جن کا رومی سلطنت میں ایک اہم کردار رہا ہے۔
64ء میں جب شہرِ روم میں آگ لگی تھی اور اس نے تقریباً تمام شہر کو تباہ کر دیا تھا تو ایک بڑا میدان خالی ہوا جہاں کبھی عام لوگوں کی آبادی تھی۔ نیرو نے اس جگہ اپنا شاندار محل تعمیر کرایا اور ایک باغ میں اپنا مجسمہ بنا کر لگوایا۔ نیرو سلطنت روم کا شہنشاہ تھا اور 54 سے 68ء تک روم کا حکمران رہا۔ لیکن جب اس کی حکومت کا خاتمہ ہوا تو اس نے خودکُشی کی تو اُس کے ساتھ ہی اُس کے محل اور مجسمے کے نشانات بھی مِٹ گئے۔
ہیروز کے مجسمے نصب کرانے کا سلسلہ جاری رہا Henry Lawrence جس نے پنجاب صوبے کو 1849 میں فتح کیا تھا۔ اس کے مداحوں نے اس کا ایک بڑا مجسمہ تیار کرا کے لاہور کے ایک چوک میں نصب کرایا۔ اس مجسمے کے نیچے لکھا ہوتا تھا کہ کیا تم تلوار کے ذریعے حکومت چاہتے ہو یا قلم کے ذریعے جب اِس پر احتجاج ہوا تو مجسمے کو اُٹھا کر کسی اسٹور میں ڈال دیا۔ یہی کوئن وِکٹوریا کے مجسمے کے ساتھ ہوا۔
اسے بھی یہاں سے ہٹا دیا گیا۔ انگیزی دور کا شاید ہی کوئی مجسمہ پاکستان میں اب کسی پبلِک مقام پر موجود ہو گا۔روس کے زوال کے ساتھ ہی مشرقی یورپ میں مجسموں کے خلاف جنگ شروع ہوئی۔ مشرقی یورپ کی ریاستیں جہاں کمیونِسٹ اقتدار تھا اُس کا خاتمہ ہوا تو عوام نے پچھلی حکومتوں کی یادوں کو فراموش کرتے ہوئے کمیونِسٹ رہنماؤں کے مجسموں کو ایک ایک کر کے زمین بوس کیا، تا کہ ماضی کے نقوش کو مِٹا دیا جائے۔
1960ء کی دہائی میں طالب علموں نے انقلابی تحریکیں شروع کی تھیں۔ یہ جنگوں کے خلاف تھے اور یورپی امپیریئلزم کے ناقد تھے۔ وہ اُن سیاسی رہنماؤں سے بھی نفرت کرتے تھے، جنہوں نے ایشیا اور افریقہ کی کالونیز میں لُوٹ کھسُوٹ کی تھی۔ ان کا خیال تھا کہ ان کے مجسمے تراش کر اور پبلِک میں نصب کر کے ان کے جرائم کو چھپایا گیا ہے۔
برطانوی تاجر اور سیاستدان سیسل روڈسCecil Rhodes (d.1902) نے روڈیشیا کا مُلک اپنے نام سے قائم کر کے افریقیوں کے حقوق کو غصب کیا تھا۔
اس کا ایک مجسمہ کیپ ٹاؤن کی یونیورسٹی میں جبکہ دوسرا اَکسفورڈ یونیورسٹی میں تھا۔ یہاں بھی طلبا اُس کا مجسمہ گِرانا چاہتے تھے، جس پر Rhodes Foundation نے یونیورسٹی کو دھمکی دی کہ اگر مجسمے کو توڑا گیا تو وہ اُس کے فنڈ بند کر دیا جائے گا۔ اس پر یہ مجسمہ قائم رہا اور Rhodes کے نام کی سکالرشپ بھی اب تک برقرار ہے۔انگلستان کے نوجوان طلبا کا مطالبہ تھا کہ چرچل کے مجسمے کو جو Westminster چوک پر لگایا گیا تھا وہاں سے اِسے ہٹایا جائے کیونکہ یہ انتہاپسند امپیریئلسٹ تھا اور کالونی کے عوام سے نفرت کرتا تھا۔
اِن سیاسی اور قومی مجسموں کے علاوہ اُن افراد کے بھی مجسمے بنائے گئے جو اَدبی اور اُصول پسندی کے لحاظ سے آزاد تھے۔ مثلاً ماسکو میں الیگزینڈر پُشکِن جو رُوس کا ایک بڑا شاعر تھا، اس کے مجسمے کے نصب ہونے پر روسی ادیبوں اور شاعروں نے شرکت کی تھی۔
اسی طرح فرانس کے مشہور ناول نگار الیگزانڈرے ڈوما کے والد الیکسس ڈوما، جو فرانسیسی فوج میں جنرل تھے اور ان سے نیپولین نفرت کرتا تھے، کو ریٹائر ہونے پر فرانس کی حکومت نے نا پینشن دی اور نہ ہی ان کی عزت کی۔
ان کے مرنے کے بعد پیرس کے کچھ لوگوں نے مِل کر ان کا مسجمہ تیار کروایا اور ان کی خدمات جو اُنہوں نے فرانس کے لیے سرانجام دیں تھیں، کی تعریف کی۔حال ہی میں جب امریکہ میں پولیس کے رویّے اور نسل پرستی کے خلاف سیاہ فام افراد کی تحریکیں اُٹھیں تو ان باشندوں نے خانہ جنگی کے دوران جنوبی امریکی ریاست کے جو رہنما تھے، اُن کے مجسموں کو توڑا۔
تاکہ نسل پرستی کی ان یادگاروں کا خاتمہ کیا جائے۔سیاہ فام امریکیوں کی یہ تحریک افریقی ممالک تک بھی پہنچ گئی تھی۔ یہاں پر کچھ یونیورسٹیوں اور مُلکوں میں گاندھی جی کے مجسمے لگے ہوئے تھے۔ انہیں اَہنسا اور عدم تشدد کا حامی سمجھا جاتا ہے۔ اِس پر ایک یونیورسٹی پروفیسر نے کہا کہ افریقی رہنما گاندھی جی کی انگریزی میں تحریریں پڑھتے ہیں۔
اگر وہ اُنہیں گجراتی زبان میں پڑھیں تو اندازہ ہو گا کہ گاندھی جی افریقی باشندوں کو کم تَر سمجھتے تھے۔ اِس پر گھانا کی آکرا یونیورسٹی سے گاندھی جی کے مجسمے کو ہٹا دیا گیا تھا۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ایک وقت میں اقتدار پر رہنے والے اور ریاستی نظریے کی بنیاد پر مجسموں کے ذریعے اپنے تسلّط کا اظہار کرتے تھے۔ لیکن وقت کے بدلنے ساتھ ہی نہ اُن کا اقتدار رہا اور نہ یادگاری مجسمے۔مجسمے ایک خاص عہد کی پیداوار ہوتے ہیں اور اُس عہد کے افکار اور خیالات کی نمائندگی کرتے ہیں۔ اس لیے جب وقت بدلتا ہے، حالات تبدیل ہوتے ہیں اور تاریخ نیا رُخ اختیار کرتی ہے تو اُس کے ساتھ ہی مجسمے اور اُن سے مُنسلک روایتیں فرسودہ ہو جاتیں ہیں۔ مجسموں کی جنگ کا خاتمہ تو ہو جاتا ہے مگر ایک نئے دور کی تشکیل کے لیے تخلیقی صلاحیتوں کی ضرورت ہوتی ہے۔
نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔