Live Updates

قومی سلامتی کیلئے اقتصادی سلامتی اہمیت کی حامل ہے، 2023ء میں پاکستان میں جی ڈی پی کی نمو کی شرح منفی 2 فیصد تھی جو 2024ء میں 2.5 فیصد تھی، وفاقی وزیر خزانہ سینیٹر محمد اورنگزیب کی پریس کانفرنس

پیر 9 جون 2025 17:20

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 09 جون2025ء) وفاقی وزیر خزانہ و محصولات سینیٹر محمد اورنگزیب نے کہا ہے کہ قومی سلامتی کیلئے اقتصادی سلامتی اہمیت کی حامل ہے، اقتصادی اشاریوں سے قومی معیشت کے استحکام کی عکاسی ہو رہی ہے، 2023ء میں پاکستان میں جی ڈی پی کی شرح نمو منفی 2 فیصد تھی جو 2024ء میں 2.5 فیصد تھی اور اس سال 2.7 فیصد ہے، معاشی استحکام کو پائیدار بنیادوں پر آگے لے جا رہے ہیں، ڈھانچہ جاتی اصلاحات کے پروگرام کو جاری رکھنا ہے تاکہ اتار چڑھائو کے چکر سے ہم باہر نکل آئیں، جی ڈی پی کے تناسب سے ٹیکسوں کی شرح پانچ سال کی بلند ترین سطح پر ہے۔

پیر کو یہاں قومی اقتصادی سروے 2024-25ء کے اجراء کے موقع پر سیکرٹری خزانہ امداد اﷲ بوسال اور حکومت کی معاشی ٹیم کے اراکین کے ہمراہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر خزانہ نے کہا کہ 2023ء میں عالمگیر اقتصادی نمو کی شرح 3.5 فیصد، 2024ء میں 3.3 فیصد اور 2025ء کیلئے 2.8 فیصد کا اندازہ ہے، اسی تناظر میں 2023ء میں پاکستان میں جی ڈی پی کی شرح نمو منفی 2 فیصد تھی جو 2024ء میں 2.5 فیصد تھی اور اس سال 2.7 فیصد ہے، اس سے قومی معیشت کی بتدریج بحالی کی عکاسی ہو رہی ہے۔

(جاری ہے)

وزیر خزانہ نے کہا کہ عالمگیر سطح پر 2023ء میں مہنگائی کی شرح 6.8 فیصد، 2024ء میں 5.7 فیصد اور اس سال 4.3 فیصد ہے، پاکستان میں 2023ء میں مہنگائی کی شرح 29 فیصد، 2024ء میں 23 فیصد اور اس سال 4.6 فیصد ہے، اس سے اندازہ ہو رہا ہے کہ مہنگائی پر قابو پانے کیلئے اقدامات درست سمت میں اٹھائے گئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ گذشتہ سال پالیسی ریٹ 22 فیصد تھا جس میں 1100 بیسز پوائنٹس کی بتدریج کمی کی گئی، جی ڈی پی کے تناسب سے قرضوں کی شرح 68 فیصد سے کم ہو کر 65 فیصد کی سطح پر آ چکی ہے، اسی طرح زرمبادلہ کے ذخائر میں تقریباً پانچ ارب ڈالر کا اضافہ ہوا ہے، اس وقت دو ماہ کی درآمدات کیلئے زرمبادلہ دستیاب ہے۔

وزیر خزانہ نے کہا کہ وزیراعظم شہباز شریف کے پہلے دور اور اس کے بعد نگران دور حکومت میں پاکستان نے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کے ساتھ جو پروگرام کیا تھا اس سے پاکستان کے اعتماد میں اضافہ ہوا ہے، اس اعتماد کی وجہ سے معاشی استحکام کو پائیدار بنیادوں پر آگے لے جا رہے ہیں، اس کے ساتھ ساتھ ڈھانچہ جاتی اصلاحات کے پروگرام کو جاری رکھنا ہے تاکہ اتار چڑھائو کے چکر سے ہم باہر نکل آئیں۔

وزیر خزانہ نے کہا کہ ٹیکس کے شعبہ میں اصلاحات کی جا رہی ہیں، اس وقت جی ڈی پی کے تناسب سے ٹیکسوں کی شرح پانچ سال کی بلند ترین سطح پر ہے، ٹیکس شعبہ میں اصلاحات کے ضمن میں عوام، پراسس اور ٹیکنالوجی بنیادی ستون ہیں اور اسی بنیاد پر ہم آگے بڑھ رہے ہیں۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ توانائی کے شعبہ میں اصلاحات کا عمل جاری ہے، ریکوریز کی شرح شاندار ہے، صنعتی شعبہ کیلئے ٹیرف میں کمی لائی گئی ہے، ڈسکوز کے بورڈ میں نجی شعبہ کو شامل کیا گیا ہے، این ٹی ڈی سی کو تین کمپنیوں میں تبدیل کیا گیا، 1.27 ٹریلین روپے کے گردشی قرضہ کیلئے بینکوں سے بات چیت جاری ہے۔

وزیر خزانہ نے کہا کہ سرکاری ملکیتی اداروں کا خسارہ 800 ارب روپے کے قریب ہے، کابینہ کی کمیٹی برائے سرکاری ملکیتی ادارے نے گذشتہ سال 24 کمپنیوں کو نجکاری کمیشن کے حوالے کیا، اس عمل کو آگے بڑھایا جا رہا ہے، اسی طرح پبلک فنانس کے شعبہ میں بھی پیشرفت ہو رہی ہے، پالیسی ریٹ میں کمی سے قرضوں کی ادائیگی میں تقریباً ایک ٹریلین روپے کی بچت کی گئی، پنشن اصلاحات پر عمل جاری ہے، اس شعبہ میں رسائو کو روکا گیا ہے اور اب اصلاحات کی طرف جانا ہے، وفاقی حکومت کی رائٹ سائزنگ کا عمل بھی بتدریج آگے بڑھ رہا ہے، ہم نے 18ویں ترمیم کے تحت صوبوں کے پاس جانے والی وزارتوں اور محکموں کو صوبوں کے حوالے کرنا ہے، رائٹ سائزنگ کیلئے وزارتوں اور ایس او ایز کے سی ای اوز کو باقاعدہ دعوت دی جاتی ہے اور ان کی بات سنی جاتی ہے، یہ معاملہ ذیلی کمیٹی کے پاس جاتا ہے، ذیلی کمیٹی کی سفارشات کو کابینہ کے سامنے رکھا جاتا ہے۔

وزیر خزانہ نے کہا کہ بیرونی محاذ پر بھی مثبت پیشرفت ہوئی ہے، جولائی سے اپریل تک کی مدت میں حسابات جاریہ کے کھاتوں کا توازن 1.9 ارب ڈالر فاضل رہا، گذشتہ سال حسابات جاریہ کے کھاتوں کا خسارہ 1.3 ارب ڈالر تھا، ملکی برآمدات میں سات فیصد اضافہ ہوا ہے، 3.1 ارب ڈالر کی صرف آئی ٹی کی برآمدات کی گئی ہیں جس میں فری لانسر نے 400 ملین ڈالر کی خدمات فراہم کیں، اس کے برعکس درآمدات میں 11.7 فیصد اضافہ ہوا، مشینری اور ٹرانسپورٹ کی درآمدات میں نمایاں اضافہ ہوا ہے جو صنعتی اور زرعی شعبہ کیلئے اہم ہیں، ترسیلات زر میں 31 فیصد اضافہ ہواہے، ترسیلات زر میں روشن ڈیجیٹل اکائونٹس اور سمندر پار پاکستانیوں کا کردار اہمیت کا حامل ہے، روشن ڈیجیٹل اکائونٹس کے ذریعے 10 ارب ڈالر سے زائد کی ترسیلات زر ریکارڈ کی گئیں، اس وقت روشن ڈیجیٹل اکائونٹس کے ذریعے 14 لاکھ سے زائد اکائونٹس بنائے گئے ہیں۔

وزیر خزانہ نے کہا کہ مالی نظم و ضبط ہماری اولین ترجیح ہے، محصولات میں 26 فیصد اضافہ ہوا ہے، گذشتہ سال محصولات میں 30 فیصد اضافہ ہوا تھا، ٹیکس کی بنیاد میں وسعت آئی ہے، 3.7 ملین انفرادی فائلرز ہیں، ہائی ویلیو فائلرز میں 170 فیصد اضافہ ہوا ہے، ریٹیل کے شعبہ میں 492 ہزار کا نمایاں اضافہ ہوا، ریٹیل رجسٹریشن میں اضافہ کی شرح 74 فیصد کے قریب ہے۔

وزیر خزانہ نے کہا کہ قرضوں اور اس کی ادائیگی کے شعبہ کو منظم کیا جا رہا ہے، حکومت اپنی شرائط پر قرضہ لینے کو ترجیح دے رہی ہے، حکومت کی کوشش ہے کہ قرضوں میں نجی شعبہ کو ترجیح دی جائے، اسلامی سکوک میں 26 فیصد اضافہ ہوا ہے، ہم ڈیٹ مینجمنٹ آفس کو عالمی معیار کے مطابق بنا رہے ہیں، صنعتی ترقی کی شرح 4.8 فیصد رہی، بڑی صنعتوں کی پیداوار میں اضافہ ہوا ہے، زراعت میں نمو کی شرح 0.6 فیصد ہے، لائیو سٹاک 4.7 فیصد اور پولٹری میں 8.1 فیصد کی شرح سے نمو ہوئی، آئی ٹی 6.5 فیصد، تعمیرات 3.8 فیصد، فوڈ سروسز 4.1 فیصد اور خدمات کے شعبہ میں 2.9 فیصد کا اضافہ ہوا، ٹیکسٹائل ویئرنگ ایپرل اور فشریز و فاریسٹری میں بھی اضافہ ہوا ہے۔

وزیر خزانہ نے کہا کہ اہم فصلوں کی پیداوار میں 13.5 فیصد کی کمی سے زراعت کی ترقی کی رفتار متاثر ہوئی، ضرورت اس امر کی ہے کہ نجی شعبہ سیڈ ٹیکنالوجی میکنائزیشن اور سٹوریج میں آگے آئے، پنجاب میں نجی شعبہ نے کام شروع کر دیا ہے اور حکومت تمام معاونت فراہم کرے گی۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ زراعت کے شعبہ کو قرضوں کی فراہمی میں 16 فیصد اضافہ ہوا ہے، زرعی شعبہ کو فراہم کردہ قرضوں کا حجم 2 ٹریلین روپے کے قریب پہنچ گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ فچ، موڈیز، عالمی بینک اور دیگر بین الاقوامی اداروں نے پاکستان اور پاکستان کی معیشت پر اعتماد کا اظہار کیا، بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کی جانب سے حالیہ قسط کئی چیلنجوں کے بعد ہمیں ملی ہے، ہماری افواج نے بھارتی جارحیت کے خلاف جو لوہا منوایا ہے اس کے ساتھ ساتھ معاشی محاذ پر بھی ایک جنگ جاری تھی، آئی ایم ایف نے بھارت کے ایگزیکٹو ڈائریکٹرز نے بہت کوشش کی کہ میٹنگ نہ ہو اور اگر ہو تو اس میں پاکستان کیلئے قسط کا اجراء ایجنڈے میں شامل نہ ہو تاہم پاکستان کے دوطرفہ اور کثیر الجہتی شراکت داروں نے ہمارے ساتھ تعاون کیا، ہم اگر درست سمت میں نہ ہوتے تو یہ ایک مشکل امر تھا، قومی سلامتی کیلئے اقتصادی سلامتی اہمیت کی حامل ہے، اوورسیز چیمبرز، پی ڈبلیو سی اور آئی ایف ایس او ایس کے حالیہ سرویز میں پاکستان کی معیشت اور کاروباری اعتماد میں اضافہ کی عکاسی ہو رہی ہے۔

وزیر خزانہ نے کہا کہ ایس آئی ایف سی نے جن شعبوں کو ترجیح دی ہے اس میں پیشرفت حقیقی گیم چینجر ہے۔ انہوں نے کہا کہ کوپ۔29 میں پاکستان نے قومی موسمیاتی حکمت عملی پیش کی، گرین سکوک سے پاکستان کو 30 ارب روپے حاصل ہوئے ہیں، موسمیاتی فنانسنگ کیلئے فنڈنگ کو آپریشنلائز کرنا ہماری ترجیح ہے۔ صحافیوں کے سوالات کے جواب دیتے ہوئے وزیر خزانہ نے کہا کہ کلی معیشت کا استحکام پائیدار بحالی و نمو کی بنیاد ہے، پالیسی ریٹ میں بتدریج کمی لائی گئی ہے، عالمی بینک نے خط غربت کے حوالے سے جو نیا بنچ مارک اور تھریش ہولڈ رکھا ہے اس کی بنیادوں کو دیکھنا ضروری ہو گا۔

وزیر خزانہ نے کہا کہ معاشی طور پر کمزور طبقات کو ریلیف فراہم کرنا آئندہ مالی سال کے بجٹ میں حکومت کی اولین ترجیحات میں شامل ہے، حکومت کا کام پالیسی اور ایکو سسٹم دینا ہے، کروڑوں نوکریاں دینے کے نعروں کے حق میں نہیں ہوں، اس کیلئے نجی شعبہ کو کلیدی کردار ادا کرنا ہو گا، پاکستان کی فری لانسرز نے اس سال 400 ملین ڈالر کمائے ہیں، ہمیں ایسے نوجوانوں اور ہنرمندوں کی حوصلہ افزائی کرنا ہو گی، ایک پاکستانی نژاد امریکی نے لمز میں 15 ملین ڈالر کی لاگت سے بلاک چین کی تربیت شروع کی ہے۔

انہوں نے کہا کہ کم سے کم معاوضہ کو یقینی بنانے کیلئے اقدامات کر رہے ہیں۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ ڈھانچہ جاتی اصلاحات سے ہم پائیدار نمو کے راستے پر گامزن ہیں اور اس کو کسی بھی صورت میں نہیں چھوڑ سکتے، پاکستان کو موسمیاتی فنانسنگ مل چکی ہے اور اب اس کیلئے منصوبہ بندی کرنا ہو گی تمام وزارتوں کے ساتھ مل کر اس حوالے سے کام کر رہے ہیں، عالمی بینک کے ساتھ کنٹری پارٹنرشپ پروگرام کے تحت پاکستان کو 10 برسوں میں 20 ارب ڈالر ملیں گے، اس میں ایک تہائی فنڈز موسمیاتی تبدیلیوں سے متعلق منصوبوں کیلئے ہیں۔

وزیر خزانہ نے کہا کہ این ایف سی کے تحت صوبوں کو 4.2 ٹریلین روپے اور وفاق کو 3 ٹریلین روپے ملتے ہیں، وفاقی حکومت کو سالانہ ترقیاتی پروگرام تزویراتی منصوبوں کیلئے ہو گا، صوبوں کو سماجی تحفظ کے پروگراموں کیلئے زیادہ فنڈز مختص کرنا چاہئیں۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ بجٹ کی تیاری میں دوطرفہ اور کثیر الجہتی شراکت داروں سے مشاورت ہوئی، ہم نے اپنے ہوم گرائونڈ اقتصادی ایجنڈا کو ترجیح دینا ہے، اس ایجنڈے پر ہمیں تمام شراکت داروں کا اعتماد حاصل ہے۔

انہوں نے کہا کہ حکومت نے جی ڈی پی کے تناسب سے ٹیکسوں کی شرح کو 14 فیصد کی سطح پر لانے کا ہدف مقرر کیا ہے، بھارت میں یہ شرح 18فیصد ہے۔ سیکرٹری خزانہ امداد اﷲ بوسال نے اس موقع پر کہا کہ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کے پروگرام کے تحت مالی استحکام حاصل کرنا ضروری ہے، ہماری کوشش ہے کہ سرکاری اخراجات کم اور محاصل زیادہ ہوں، ماضی میں مالی خسارہ 6 سے 8 فیصد تھا جس میں بتدریج کمی آ رہی ہے، محاصل میں اضافہ سے پی ایس ڈی پی کیلئے زیادہ فنڈز دستیاب ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ حکومتی اخراجات میں کمی آئی ہے جس میں پالیسی ریٹ میں کمی اور وزیراعظم کی جانب سے کفایت شعاری کیلئے اقدامات سے فرق پڑا ہے۔
Live آپریشن بنیان مرصوص سے متعلق تازہ ترین معلومات