Live Updates

خوراک کا بحران: غزہ میں امداد کی بلا روک و ٹوک ترسیل کا مطالبہ

یو این جمعرات 12 جون 2025 00:00

خوراک کا بحران: غزہ میں امداد کی بلا روک و ٹوک ترسیل کا مطالبہ

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 12 جون 2025ء) اقوام متحدہ کے امدادی اداروں نے بتایا ہے کہ غزہ میں آنے والی غذائی امداد کی مقدار بہت کم ہونے کے باعث بڑی تعداد میں لوگ بھوک کا شکار ہیں۔ گزشتہ مہینے امدادی خوراک کی فراہمی شروع ہونے کے بعد صرف 6,000 ٹن آٹا علاقے میں آیا ہے جس سے شہریوں کی ضروریات پوری نہیں ہو سکتیں۔

امدادی امور کے لیے اقوام متحدہ کے رابطہ دفتر (اوچا) نے کہا ہے کہ بڑھتی ہوئی غذائی قلت کو روکنے کے لیے غزہ میں 10 ہزار ٹن آٹے کی فوری ضرورت ہے۔

ادارے کی ترجمان اولگا چیریکوو نے کہا ہے کہ اس مسئلے کا واحد حل یہ ہے کہ غزہ کی جانب مزید سرحدی راستےکھولے جائیں اور ان کے ذریعے بڑی مقدار میں انسانی امداد علاقے میں آئے۔

Tweet URL

ان کا کہنا ہے کہ غزہ میں زندگی کو برقرار رکھنے کے لیے خوراک کے علاوہ پناہ کا سامان، ایندھن اور کھانا بنانے کے لیے گیس کی فراہمی بھی ضروری ہے۔

(جاری ہے)

انہوں نے اسرائیل کے حکام پر زور دیا ہے کہ وہ محفوظ اور مددگار ماحول فراہم کر کے امداد کی فراہمی کے کام کو آسان بنانے میں تعاون کریں۔ اس مقصد کے لیے امدادی ٹیموں کو نقل و حرکت کے اجازت نامے بلاتاخیر جاری کیے جائیں اور امداد کی ضرورت مند لوگوں تک رسائی یقینی بنائی جائے۔

رہن سہن کے بدترین حالات

مارچ سے غزہ کے لوگوں کو رہن سہن کے کڑے حالات کا سامنا ہے۔

اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیرش اور 'اوچا' کے سربراہ ٹام فلیچر کہہ چکے ہیں کہ غزہ میں جو امداد آ رہی ہے وہ اونٹ کے منہ میں زیرے کے برابر ہے۔

غزہ کے بازاروں میں دکانیں پیسے اور اشیا سے خالی ہیں۔ ان حالات میں بیشتر لوگ امدادی خوراک پر گزارا کرتے ہیں۔ امریکہ اور اسرائیل نے علاقے میں امداد کی تقسیم کا نیا نظام قائم کیا ہے جس کے تحت بنائے گئے چار امدادی مرکز پر گزشتہ دنوں فائرنگ کے واقعات میں درجنوں افراد ہلاک اور زخمی ہوئے ہیں۔

اکرم یوسف نامی ایک شہری نے غزہ میں یو این نیوز کے نمائندے کو بتایا کہ علاقے میں اشیائے خورونوش کی قیمتیں غیرفطری طور پر بڑھ چکی ہیں اور یہ صورتحال دو سال سے جاری ہے۔ لوگوں کو نقل مکانی، بے گھری، بمباری، تباہی اور بربادی کا سامنا ہے جبکہ تاجر اشیائے صرف کی قیمتیں بڑھائے جا رہے ہیں۔ ان حالات میں شہری کہاں جائیں؟

20 ماہ سے جاری جنگ کے باعث غزہ میں رہن سہن کے اخراجات کی شرح دنیا میں سب سے زیادہ ہے۔

شمالی غزہ کے علاقے بیت لاہیہ سے نقل مکانی کرنے والے احمد الباہری نے بتایا کہ ایک روٹی کی قیمت سات شیکل (تقریباً دو ڈالر) تک جا پہنچی ہے۔ علاقے میں آٹا ہے نہ دودھ، لوگ مسلسل بھوک کا سامنا کر رہے ہیں۔

احمد سوال کرتے ہیں کہ وہ اپنے بچے کے لیے روٹی خریدنے کے لیے سات شیکل کہاں سے لائیں؟ اس بچے کا کیا قصور ہے؟

تنخواہوں پر 'کمیشن' کی کٹوتی

اکتوبر 2023 میں جنگ شروع ہونے کے بعد فلسطینی بینک بند ہو جانے سے لوگوں کی تکالیف میں اور بھی اضافہ ہو گیا ہے۔

لوگ اپنے بینک اکاؤنٹ سے رقم نکلوانے اور پینشن تک رسائی کے لیے مقامی تاجروں کے ذریعے فون ایپلی کیشن استعمال کرنے پر مجبور ہیں جو اس کے لیے بھاری معاوضہ وصول کرتے ہیں۔

اکرم یوسف کا کہنا ہے کہ پہلے وہ اپنی تنخواہ نکلوانے پر 20 فیصد کمیشن دیتے تھے جو اب بڑھ کر 50 فیصد تک جا پہنچا ہے۔

© UNICEF/Eyad El Baba

'اس زندگی سے موت بہتر'

غزہ کے متعدد شہریوں نے یو این نیوز کو بتایا کہ ایک کلوگرام آٹے کی قیمت 100 شیکل یا 29 ڈالر کے مساوی ہو چکی ہے۔

اشرف الدیری نامی شہری کا کہنا ہے کہ اگر کسی کی تنخواہ 2,000 شیکل ہو تو اسے دکانداروں کو فون ایپلی کیشن استعمال کرنے کے عوض 1000 شیکل ادا کرنا ہوتے ہیں۔ ایک چھوٹے سے خاندان کے روزانہ اخراجات 500 شیکل سے کم نہیں ہوتے۔

راعد تفیش نامی نوجوان نے یو این نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ وہ اور ان کے بیشتر ساتھی بیروزگار ہیں جن کا کوئی ذریعہ آمدن نہیں۔

اس صورتحال میں ان کے لیے خوراک کی قیمتیں بہت زیادہ ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ان حالات سے بہتر تھا کہ انہیں موت ہی آ جاتی۔

ایک خاتون نمیر غزال نے بتایا کہ وہ اپنی تنخواہ میں بچوں کے لیے پھل، سبزیاں یا کوئی صحت بخش چیز نہیں خرید سکتیں۔ جب کبھی وہ اپنے بچوں کو روٹی مانگتا دیکھتی ہیں تو انہیں رونا آ جاتا ہے۔ ایک کلو گرام آٹا 100 شیکل میں ملتا ہے جبکہ دالوں کی قیمت 50 شیکل ہے۔

ایک کلو گرام ان کے گھرانے کی ضروریات پوری کرنے کے لیے کافی نہیں ہوتا لیکن ان کے پاس اور کوئی چارہ نہیں۔

یو این امدادی اقدامات

سوموار کو اقوام متحدہ کی ٹیموں نے کیریم شالوم کی سرحد سے آٹے سمیت کچھ امدادی سامان غزہ میں پہنچایا۔ یہ امداد غزہ شہر کی جانب بھیجی گئی لیکن اسے لوگوں نے راستے میں ہی ٹرکوں سے اتار لیا۔ اس سے پہلے بھی امدادی ٹرکوں کو لوٹنے کے واقعات پیش آتے رہے ہیں۔

'اوچا' نے کہا ہے کہ قابض طاقت کی حیثیت سے اسرائیل کی ذمہ داری ہے کہ وہ علاقے میں نظم و نسق برقرار رکھے اور شہریوں کو تحفظ فراہم کرے۔ اسے لوگوں کی ضرورت کے مطابق امداد کی فراہمی میں سہولت دینی چاہیے تاکہ لوٹ مار کا خاتمہ ہو سکے۔

Live آپریشن بنیان مرصوص سے متعلق تازہ ترین معلومات