Live Updates

کراچی چیمبر کو اسٹیٹ بینک کے بلند پالیسی ریٹ برقرار رکھنے کے فیصلے پر مایوسی

مہنگائی میں کمی، صنعتی مسابقت کی گرتی ہوئی حالت کے تناظر میں پالیسی ریٹ برقرار رکھنا نامناسب ہے، جاوید بلوانی

پیر 16 جون 2025 23:42

کراچی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 16 جون2025ء) کراچی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری (کے سی سی آئی) کے صدر محمد جاوید بلوانی نے اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی جانب سے پالیسی ریٹ کو 11 فیصد کی بلند سطح پر برقرار رکھنے کے فیصلے پر مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے اسے ضرورت سے زیادہ محتاط اور منفی اثرات کا حامل فیصلہ قرار دیا ہے جو مہنگائی میں کمی اور صنعتی مسابقت کی گرتی ہوئی حالت کے تناظر میں نامناسب ہے۔

پیر کے روز جاری کردہ ایک بیان میںجاوید بلوانی نے کہا کہ تاجر برادری نے طویل عرصے سے سنگل ڈیجٹ شرح سود کی اُمید باندھ رکھی تھی تاکہ معاشی سرگرمیوں کو فروغ ملے، کاروبار کی لاگت کم ہو اور مشکلات کا شکار صنعتوں کو سہارا ملے لیکن اسٹیٹ بینک کا موجودہ پالیسی ریٹ برقرار رکھنے کا فیصلہ مارکیٹ کے اشاروں کو نظرانداز کرنے کے مترادف ہے اور اس نے کاروباری اعتماد کو شدید متاثر کیا ہے خاص طور پر ایسے وقت میں جب معیشت کو فوری سہارا درکار ہے۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ مہنگائی واضح طور پر نیچے آ چکی ہے اور آزاد تجزیہ کاروں کی پیش گوئی ہے کہ مالی سال 2025ط26 میں یہ 6 سے 7 فیصد کے درمیان رہے گی جبکہ آئی ایم ایف اور حکومت کی جانب سے اسے 7.5 فیصد کے آس پاس بتایا گیا ہے۔ ان تخمینوں کے باوجود 11 فیصد کی بلند شرح سود کا برقرار رکھنا غیر منطقی معلوم ہوتا ہے۔ اسٹیٹ بینک نے اگرچہ مئی میں مہنگائی کے 3.5 فیصد تک بڑھنے کو جواز بنایا ہے لیکن یہ شرح اب بھی کافی کم ہے اور شرح سود میں مزید کمی کی گنجائش دیتی ہے جو بدقسمتی سے استعمال نہیں کی گئی۔

جاوید بلوانی نے زور دیا کہ اس قدر بلند شرح سود نے پاکستان کے صنعتی شعبے کو علاقائی اور عالمی سطح پر غیر مسابقتی بنا دیا ہے۔ ہمارے برآمد کنندگان کو عالمی منڈیوں میں اپنی جگہ برقرار رکھنا مشکل ہو رہا ہے جبکہ مقامی صنعتکار سستے درآمدی مال کے دباؤ میں آ چکے ہیں۔ شرح سود میں کمی صنعتوں کی بحالی اور روزگار کے مواقع پیدا کرنے کے لیے ناگزیر تھی۔

اگرچہ ایران اسرائیل کشیدگی اور تیل کی قیمتوں میں اضافے جیسے عالمی خدشات اپنی جگہ اہم ہیں جاوید بلوانی نے کہا کہ اسٹیٹ بینک کا حد سے زیادہ محتاط رویہ ملکی کاروباروں کے لیے نقصان دہ ہے۔ بیرونی خطرات حقیقت رکھتے ہیں لیکن اس کا حل مقامی پیداوار اور سرمایہ کاری کو سزا دینا نہیں۔ پہلے ہی مالیاتی سختی جاری ہے اور وفاقی بجٹ بھی سکڑاؤ کا حامل ہے لہٰذا مانیٹری پالیسی کے ذریعے سہارا دینے کی مکمل گنجائش موجود تھی۔

انہوں نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ معاشی دباؤ کے ان لمحات میں مانیٹری پالیسی کو متوازن کردار ادا کرنا چاہیے تھا لیکن آج کے فیصلے سے ایسا پیغام گیا ہے کہ جب معیشت کو ترقی کے لیے جراتمندانہ اقدام درکارہیں تب ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کیا گیا۔ انہوں نے مرکزی بینک سے اپیل کی کہ وہ معیشت کے پیداواری شعبوں کے لیے دوراندیشی اور ہمدردی کا مظاہرہ کرے۔پاکستان اب مزید اپنی ترقی کی صلاحیت کو دبانے کا متحمل نہیں ہو سکتا۔
Live بجٹ 26-2025ء سے متعلق تازہ ترین معلومات