اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 18 جون 2025ء) پاکستان کے دو سرکردہ کاروباری گروپس اور طاقتور فوج کی حمایت یافتہ ایک کمپنی نے بھی ملک کی خستہ حال قومی ایئر لائن
پی آئی اے کی خریداری میں اپنی دلچسپی ظاہر کر دی ہے۔ حکومت کو امید ہے کہ اس پیشرفت سے پی آئی اے کی نجکاری کا آغاز ہو سکے گا۔
پاکستان کی قومی ایئر لائنز پی آئی اے کی خریداری کے لیے فوجی فرٹیلائزر کمپنی لمیٹڈ کے ساتھ ساتھ دو مزید کاروباری گروپس نے اپنی گہری دلچسپی کا اظہار کر دیا ہے۔
یوں تقریباً دو دہائیوں بعد ملک میں کسی شعبے میں کسی بڑی نجکاری کے حوصلہ افزا اُمید پیدا ہو گئی ہے۔خسارے کی شکار پی آئی اے کی فروخت سے بین الاقوامی مالیاتی ادارے آئی ایم ایف کی طرف سے گزشتہ سال 7 بلین ڈالر کی بیل آؤٹ کی شرط بھی پوری ہو سکے گی۔
(جاری ہے)
پی آئی اے کی خریداری کے لیے پیشکش جمع کرانے کی آخری تاریخ انیس جون ہے۔ مقامی میڈیا کے مطابق نجکاری کا عمل نومبر تک مکمل ہونے کا قوی امکان ہے۔
بتایا گیا ہے کہ حکومت پی آئی اے کے پچاس سے سو فیصد شیئرز فروخت کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔حکومت پاکستان پر پی آئی میں اس کے حصص کی وجہ سے بڑا اقتصادی بوجھ رہا ہے اور اسلام آباد نے گزشتہ سال اس بوجھ کو کم کرنے کی ناکام کوشش بھی کی تھی تاہم ایئر لائن کی ابتر صورتحال کی وجہ سے اس کی فروخت کا کام روک یا گیا تھا۔
پاکستان ایئر لائن کی خرید میں دلچسپی دکھانے والے اداروں کا کہنا ہے کہ انہیں اس ڈیل کے لیے بہت پُرکشش 'ٹیکس انسنٹیوز‘ دیے گئے ہیں۔
اس امر پر تبصرے کی درخواست کے باوجود وزارت نجکاری کی طرف سے کوئی جواب نہیں دیا گیا ہے۔بولیاں لگانے والے بڑے کاروباری گروپس
پی آئی اے کی نجکاری کے سلسلے میں اس کی خرید کے لیے بولی لگانے والوں میں لکی سیمنٹ اور توانائی کمپنیاں کا مالک یونس برادرز گروپ بھی شامل ہے اور ایک کنسورشیم کی سربراہی عارف حبیب لمیٹڈ کر رہی ہے، جس میں فاطمہ فرٹیلائزر، لیک سٹی اور سٹی اسکول بھی شامل ہیں۔
پاکستانی فوج کی جزوی ملکیت والی فوجی فرٹیلائزر کمپنی نے کہا ہے کہ وہ پاکستان اسٹاک ایکسچینج کو نوٹس دیتے ہوئے پی آئی اے کی خرید میں اپنی دلچسپی کا اظہار کرے گی۔ یاد رہے کہ فرٹیلائزر پروڈکشن پاکستان میں بہت منافع بخش شعبہ ہے۔
پی آئی اے کے ملازمین کا ایک گروپ بھی بولی کے لیے آگے آیا ہے۔ اس ایئر لائن کی سینئر اسٹاف ایسوسی ایشن کے صدر ہدایت اللہ نے کہا،''بولی لگانے کے لیے سرمایہ کار تلاش کرنے کے علاوہ ملازمین اپنے پروویڈنٹ فنڈ اور پنشن کا استعمال کریں گے۔
ہم یہ ملازمتیں بچانے اور کمپنی کی کایا پلٹنے کے لیے یہ کر رہے ہیں۔‘‘پی آئی اے کی تشکیل نو
پی آئی اے کی تشکیل نو کا کام گزشتہ برس کیا گیا تھا۔ جس کے لیے اس پر موجود قرضے کے بوجھ کا 80 فیصد حکومت کی طرف اتارتے ہوئے اسے سرمایہ کاروں کے لیے پُر کشش بنانا تھا۔ تاہم اس کی بولی لگانے والوں کو ہر وقت اسٹافنگ اور ملازمین کی برطرفی کی صلاحیت کے بارے میں خدشات اور پریشانی رہتی ہے۔
یاد رہے گزشتہ سال پی آئی اے کی فروخت کی کوشش اُس وقت ناکام ہو گئی تھی جب 36 ملین ڈالر کی واحد بولی لگائی گئی تھی جو کہ اس کی لگائی گئی قیمت 305 ملین ڈالر سے کہیں کم تھی۔
ادارت: عاطف بلوچ