4لاہور(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 20 جون2025ء)سپیکر پنجاب اسمبلی ملک محمد احمد خان نے اپوزیشن کو اپنا رویہ ٹھیک کرنے کی تنبیہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ اب میں بالکل اصول پر اسمبلی کی کارروائی چلائوں گا،آپ لوگ دیکھ لیں اب آپ نے کس طرح کا رویہ اختیار کرنا ہے، آئندہ مالی سال کے پیش کئے گئے بجٹ پر عام بحث کا سلسلہ دوسرے روز بھی جاری رہا ، حکومتی بنچوں سے بجٹ کے حق میں جبکہ حزب اختلاف کی جانب سے مخالفت میں تقریروں کا سلسلہ جاری رہا ۔
پنجاب اسمبلی کا اجلاس گزشتہ روز بھی مقررہ وقت کی بجائے ایک گھنٹہ 56منٹ کی تاخیر سے سپیکر ملک محمد احمد خان کی صدارت میں شروع ہوا۔اجلاس کے آغاز میں ہی مائیک ٹوٹنے کا معاملہ زیر بحث آیا،اسپیکر ملک محمد احمد خان نے قائد حزب اختلاف ملک احمد خان بھچر سے سخت ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ مجھے بہت افسوس ہے کہ آپ نے یہ الزام لگایا کہ مائیک ہم نے توڑے،میں با اصول انسان ہوں،کبھی یہ بات برداشت نہیں کروں گا،اب اس کی انکوائری ہو گی اس میں جو ذمہ دار پایا گیا اس کے خلاف ایکشن ہوگا،آپ لوگوں نے جو ہلڑ بازی ، غنڈہ گردی کی اس کے نتیجے میں اگر مائیک ٹوٹے ہیں تو وہ ارکان ذمہ دار ہوں گے،اب میں بالکل اصول پر اسمبلی کی کارروائی چلائوں گا،آپ لوگ دیکھ لیں اب آپ نے کس طرح کا رویہ اختیار کرنا ہے۔
(جاری ہے)
میں نے بلال یامین کے الزام کے معاملے پر انکوائری کمیٹی بنائی ہے، لوگوں کو گالیاں دینا احتجاج نہیں ہے،دونوں پارٹیوں کی جانب سے غلط انداز میں احتجاج کیا گیا،ایک دوسرے پر کتابیں پھینکنا، سپیکر کے گرد گھیرا ڈالنے کی کوشش کرنا، انتہائی غلط اقدام ہے، آپ نے وزیر خزانہ کو تقریر کرنے نہیں دی، حکومتی بنچوںنے کل آپ کو تقریر نہیں کرنے دی،بجٹ تقریر کے دوران صوبائی وزیر خزانہ کی جانب کتاب پھینکنے کے معاملے کی انکوائری کروا رہا ہو،جو رکن اسمبلی ذمہ دار ہوا اس کا معاملہ ایتھکس کمیٹی کو بھیجا جائے گا،جب تک اس کرسی پر ہوں، ایوان کے وقار کا تحفظ یقینی بنائوں گا،ایوان کی کارروائی قانون کے مطابق چلے گی، کسی بد نظمی کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
صوبائی وزیر خزانہ مجتبیٰ شجاع الرحمن نے کہا کہ اپوزیشن ہم نے بھی کی ہے ہم نے کبھی ایسا ماحول نہیں بنایا،احتجاج ہم بھی کرتے تھے لیکن گالیاں نہیں دیتے تھے،ہم نے سوچا تھا ہم قائد حزب اختلاف کے تقریر سنیں گے لیکن انہوں نے ہمیں مجبور کیا۔قائد حزب اختلاف ملک احمد خان بھچر نے کہا کہ اگر آپ نے ہمارے احتجاج کو ہلڑ بازی اور غنڈہ گردی کہنا ہے تو یہ بات حکومتی اراکین کو بھی بتا دیں،احتجاج ہماراحق ہے،آپ ہمیں احتجاج سے منع نہیں کر سکتے،جتنی غنڈہ گردی ہمارے ساتھ ہو رہی ہے کسی اور جماعت کے ساتھ نہیں ہوئی،اعجاز شفیع کے معاملے پر آپ کو بار بار کہا سی سی ٹی وی فوٹیج نکلوائیں لیکن آپ نے نہیں نکلوائی،حسن ملک کی فوٹیج نکال کر آپ نے معطل کر دیا،ہمارے ساتھ ایوان میں زیادتی ہوتی ہے۔
بجٹ2025-26 پربحث کا سلسلہ دوسرے روز بھی جاری رہا۔حکومتی اتحادی پیپلز پارٹی کے پارلیمانی لیڈر سید علی حیدر گیلانی نے کہا کہ بجٹ میں جنوبی پنجاب کو نظر انداز کیا گیا ،سپیکر اس پر کمیٹی بنائیں،اگر حکومت جنوبی پنجاب کے ساتھ نا انصافی کرے گی تو پھر الگ صوبہ بننے کی آواز تو آئے گی۔الگ صوبہ مانگناہمار حق ہے اور ہم انشا اللہ الگ صوبہ لیں گے، ہمارے ساتھ اس بجٹ میں نا انصافی ہوئی ہے۔
بے شک وسطی پنجاب میں ترقی ہونی چاہیے ہمیں اس پر اعتراض نہیں،جنوبی پنجاب کے اضلاع کے ہیومن انڈیکس تو بہتر کر لیں،اس بجٹ میں جو نا انصافی کی گئی ہے ہمیں پہلے اس کا حساب لینا ہوگا،ہمیں آپ پیسے نہیں دیتے ہمارے وسیب کے لوگ کہتے ہیں پیسے نہیں لا سکتے کم از کم ہماری بات تو ایوان تک پہنچائیں،ہم بات کریں تو عظمی بی بی کو اعتراض ہو جاتا ہے ،ہمیں کم از کم بات کرنے کی تو اجاز ت ہونی چاہیے ۔
ملتان واسا کو اس سال ایک روپیہ بھی نہیںدیا گیا،ملتان کے لوگ آلودہ زہریلا پانی پینے پر مجبور ہیںجبکہ لاہور واسا کو 147ارب روپے دیئے گئے ہیں ۔اپوزیشن رکن اعجاز شفیع نے بجٹ پر بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہا کہ حالیہ بجٹ کسان دشمن بجٹ ہے،حکومت کے اپنے اعداد و شمار میں تضاد ہے،حالیہ بجٹ میں بنیادی زرعی مسائل کے حل کے لیے کوئی سنجیدہ قدم نہیں اٹھایا گیا۔
حکومتی رکن رانا محمد ارشدنے ایوان میں گفتگوکرتے ہوئے کہا کہ تعلیم کے بجٹ میں 21فیصد اضافہ کیا ہے،اپوزیشن اپنے پرانے بجٹ سے آج کے بجٹ کا موازانہ کرلے،ہمیں یہ اقتدار بھیک میں نہیں ملا،صحت بجٹ میں گزشتہ سال کی نسبت 17فیصد اضافہ کیا گیا ہے۔ اپوزیشن رکن وقاص مان نے کہا کہ بجٹ آمدن اور اخراجات کا توازن ہوتا ہے،جیسے ایک گھر کا بجٹ ہوتا ہے اسی طرح یہ ایک بڑے گھر کا بجٹ ہے،جب آمدن کم ہو تو سربراہ اپنا خرچہ کم کرتا ہے لیکن یہاں پر اپنے اخراجات کم کرنے کی بجائے بڑھا دئیے گئے ہیں،پی ڈی ایم حکومت میں جی ڈی پی گروتھ اور تحریک انصاف کے دور حکومت کی جی ڈی پی گروتھ دیکھ لیں خود معلوم ہو جائے گا،3لاکھ 84ہزار کسانوں کو کسان کارڈ پر قرضہ دیا گیا جبکہ انہوں نے دعوی کیا کہ 6لاکھ کسانوں کو قرضہ دیا گیا ہے۔
حکومتی رکن مہر کاشف نے کہا کہ پاکستان کی تاریخ میں تین دفعہ منفی جی ڈی پی گروتھ ہوا تھا جس میں ایک دور تحریک انصاف کابھی تھا،حالیہ بجٹ پر وزیر اعلیٰ پنجاب کومبارکباد پیش کرتا ہوتا ہوں،وزیر اعلیٰ نے 47فیصد زیاد بجٹ دیا۔پی ٹی آئی کے پارلیمانی لیڈر علی امتیاز وڑائچ نے کہا کہ ورلڈ بنک کی رپورٹ کے مطابق غربت کی شرح بڑھ گئی ہے ،،زراعت کے تمام سیکٹر ز میں کمی آئی ہے اور حکومت کہتی ہے ہم نے بڑی سہولت دی ہے۔
حکومتی رکن راجہ شوکت بھٹی نے کہا کہ جس گلی جس محلے میں جائیں نوازشریف کا لگایا ہوا منصوبہ نظر آئے گا،اپوزیشن کہتی ہے نوازشریف کا نام نہ لیں کیونکہ ان کو اس سے بڑی جلن ہوتی ہے،ان کو مریم نوازکے نام سے بھی تکلیف ہوتی ہے،ایک بجٹ ہماری جماعت نے پچھلے سال دیا اس بجٹ کے اثرات کونے کونے میں پہنچے،مریم نواز کے فیلڈ ہسپتال میں کسی جماعت کی تفریق کے سب کا علاج ہوتا ہے،ان کی آخری امید جو تھی وہ کل امریکہ میں لنچ پر ٹوٹ گئی۔
اپوزیشن رکن عدنان ڈوگر نے کہا کہ ہم نے متعدد بار کہا کہ گندم کی قیمت مقرر کی جائے لیکن اس کا فیصلہ اب تک نہیں ہو سکا،آپ کسان کو ٹریکٹر دیں یا کسان کارڈ دیں اس کا کوئی فائدہ نہیں ،جب تک آپ ان سے گندم نہیںخریدیں گے ،ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کو پرائیویٹائز کیا جا رہا ہے کیوں ایجوکیشن سسٹم خراب کیا جا رہا ہے ،جنوبی پنجاب کی عوام کیلئے ایک پیسا تک نہیں رکھا گیا،اگر جنوبی پنجاب نے ان کو ووٹ نہیں دیئے تو انہوں نے ان کا بجٹ تک ہی نہیں رکھا،وزیر خزانہ جنوبی پنجاب کے لوگوں پر بھی دھیان دیں ان کے لیے بھی بجٹ مختص کریں۔
حکومتی رکن ذکیہ شاہنواز نے بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہا کہ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا وزیر اعلیٰ پنجاب جو خواب دیکھیں وہ پورا نا ہو،وزیراعلی کہتی ہیں جس جس پراجیکٹ کی بنیاد میں رکھ رہی ہوں وہ آنے والی نسلوں کے لیے ہے،وزیراعلی بچوںکے مستقبل کیلئے کام کر رہی ہے،اپوزیشن کا کام،شور مچانا اور لوگوں کو پراجیکٹ کے بارے میں گمراہ کرنا ہے،جس طرح سے موسمیاتی تبدیلی پنجاب پر اثر انداز ہو رہی ہے اسی طرح سے خوشحالی بھی آ رہی ہے،کسان کے بارے میں سب سے زیادہ وزیراعلی پنجاب نے سوچا ہے ،میں نواز شریف ،وزیراعظم شہباز شریف اوروزیراعلی پنجاب مریم نواز کی شکر گزار ہوں کہ آپ غریب عوام کو ریلیف دینے میں لگے ہیں۔
اپوزیشن رکن شعیب امیر نے کہا کہ ہمارے ملک میں کپاس ختم ہوتی جارہی ہے ،پڑھے لکھے نوجوانوں کیلئے اس حکومت کے پاس نوکری تک نہیں ہے،ماں باپ خون پسینے سے اپنے بچے کو پڑھاتے ہیں لیکن اس کے لیے نوکریاں نہیں ہیں۔حکومتی رکن تیمور لالی نے کہا کہ اس بجٹ میں نئے منصوبوں پر کام کیا جائے گا،جو آدمی دو وقت کی روٹی نہیں کما سکتا اس کو حکومت روش کارڈ فراہم کر رہی ہے،اس بجٹ میں شہروں کے بعد دیہاتوں میں بھی خوشحالی آئے گی،سڑکوں کی تعمیر کو بہتر بنایا جا رہا ہے،میرے شہر میں ڈگری کالج نہیں تھا اب اس پر بھی کام کیا جا رہا ہے،سب کام بہتر ہیں لیکن کسان کے لیے بھی سہولیات ہونی چاہیے ،کسانوں ٹریکٹر ٹرالی تو دے رہے ہیں لیکن جب بل کی باری آتی ہے تو دل دھڑکتا بند کر دیتا ہے۔
بجٹ بحث میں دیگر اراکین نے بھی حصہ لیا ۔