Live Updates

پیپلزپارٹی کی سندھ حکومت کاعوام دشمن وکراچی دشمن بجٹ مسترد کرتے ہیں ،ْ محمد فاروق

وفاق نے کے فورمنصوبے کے لیے صرف 3.2ارب روپے رکھے جبکہ صوبائی حکومت نے بھی کے فور منصوبہ کے لیے عملاًکچھ نہیں رکھا سالانہ 3ہزار ارب روپے سے زائد ٹیکس ادا کرنے کے باوجود کراچی کی 60فیصد آبادی پانی سے محروم ہے ،سندھ اسمبلی میں بجٹ تقریر

جمعہ 20 جون 2025 22:20

�راچی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 20 جون2025ء) جماعت اسلامی کے رکن سندھ اسمبلی محمد فاروق نے صوبائی بجٹ برائے 2025-26پر اسمبلی میں اپنی بجٹ تقریر کرتے ہوئے کہاکہ پیپلزپارٹی کی سندھ حکومت کا بجٹ نہ صرف عوام دشمن بلکہ کراچی دشمن بجٹ بھی ہے اسے مسترد کرتے ہیں۔ واپڈا کے مطابق کے فورمنصوبے کے لیے 40ارب روپے کی ضرورت تھی لیکن وفاقی حکومت نے کے فورمنصوبے کے لیے صرف 3.2ارب روپے مختص کیے جبکہ پیپلزپارٹی کی صوبائی حکومت نے بھی کے فور منصوبہ کے لیے عملاًکچھ نہیں رکھاجس کا واضح مطلب ہے کہ کے فور منصوبہ تقریبا بندہونے کے قریب ہے ۔

کراچی کے ساڑھے تین کروڑ عوام جو سالانہ 3ہزار ارب روپے سے زائد ٹیکس ادا کرتے ہیںلیکن کراچی کی 60فیصد آبادی پانی سے محروم ہے ،کراچی کے شہریوں کو نلکوں میں تو پانی نہیں ملتا لیکن ٹینکروں کے ذریعے مہنگے داموں پانی فروخت کیا جاتا ہے اور مرے پہ سو درے پانی نہ ملنے کے باوجود کراچی واٹر کارپوریشن کا ماہانہ بل باقاعدگی سے آتا ہے جس میں ٹیکس بھی لگایا جاتا ہے ۔

(جاری ہے)

واٹر ٹینکر اور ہائیڈرینٹ مافیا کی سرپرستی کرنے والے پیپلزپارٹی کے ہی لوگ ہیں۔کراچی سمندر کے برابر آباد ہے ،کھارے پانی کومیٹھا کرنے کے لیے منصوبہ موجودہ بجٹ میں شامل ہی نہیں ہے ۔2007کا ایس تھری منصوبہ ابھی تک تعطل کا شکار ہے ۔صوبائی بجٹ کے شعبہ صحت میں اربوں روپے این جی اوز کی مد میں رکھے گئے ہیں لیکن وہ رقم جو سرکاری اسپتالوں کے لیے مختص کی جاتی ہے ،پیپلزپارٹی کی بیوروکریسی اور سکریٹری استعمال کرتے ہیں اوراربوں روپے کی کرپشن کی جاتی ہے یہی وجہ ہے کہ جناح اسپتال میں ادویات نہ ہونے کے برابر اور ایک ہی سرنج سے کئی بچوں کو انجیکشن لگایا جاتا ہے،عباسی شہید اسپتال 800بستروں پر مشتمل ہے جو کے ایم سی کے ماتحت ہے کراچی کا میئر پیپلزپارٹی کا جیالا ہے لیکن صوبے کے بجٹ میں عباسی شہید اسپتال کے لیے کوئی گرانٹ نہیں رکھی گئی ۔

صوبہ سندھ میں شعبہ تعلیم کا 613ارب روپے کا بجٹ ہے جس میں سے 524ارب روپے تنخواہوں میں ہی خرچ ہوجائیں گے،صوبہ سندھ کے 80لاکھ بچے اور بچیاں اسکولوں سے باہر ہیں ان کے لیے تعلیم کا کوئی انتظام موجودنہیں ہے ۔صوبہ میں شعبہ صحت اور شعبہ تعلیم میں سب سے زیادہ کرپشن کی جاتی ہے جس پر قابو پانے کی ضرورت ہے ۔سندھ ہائیر ایجوکیشن میں کراچی یونیورسٹی کے لیے صرف 3.5ارب روپے رکھے گئے جو بہت کم ہے۔

انہوں نے کہاکہ لوکل باڈیز کے لیے 327.83بلین روپے رکھے گئے جس میں لوکل باڈیز ترقیاتی بجٹ کے لیے صرف 123ارب روپے رکھے گئے ،پیپلزپارٹی کی صوبائی حکومت نے آئین کے آرٹیکل 140-Aکے مطابق اختیارات کو ٹاؤن و یوسی تک منتقل نہیں کیا ،سارے اختیارات میئر اور سندھ حکومت کے پاس ہی ہیں،شہر کا بہت بڑا مسئلہ سیوریج لائن اورگٹر وں کے ڈھکن کا نہ ہونا ہے،گٹر بہتے ہیں تو یوسی آفس میں شکایتیں درج کروائی جاتی ہیں ، سندھ سولڈ ویسٹ مینجمنٹ کے لیے 27ارب روپے رکھے گئے ہیں لیکن یہ فنڈز ٹاؤن و یوسی تک کیوں نہیں منتقل نہیں کیے جارہے ہیں،پیپلزپارٹی کی صوبائی حکومت نے اپنا میئر بنانے کے باوجود کسی بھی یوسی کو ترقیاتی فنڈ جاری نہیں کیا،2004میں سابق سٹی ناظم نعمت اللہ خان نے فی یوسی سالانہ ایک کروڑ روپے صرف ترقیاتی فنڈ کے لیے مختص کیے تھے ،اکنامکس انٹیلی جنس یونٹ کی رپورٹ کے مطابق کراچی بدترین شہروں میں پانچویں نمبر سے چوتھے نمبر پر آچکا ہے اور اگر اسی طرح کراچی کا میئر پیپلزپارٹی کا جیالا رہا تو کراچی چوتھے سے پہلے نمبر پر آجائے گا ۔

محمد فاروق نے کہاکہ صوبائی بجٹ میں شعبہ ٹرانسپورٹ کی مد میں کے سی آر منصوبے کے لیے گزشتہ سال ساڑھے چار لاکھ روپے مختص کیے گئے تھے جو شاید صرف تالے خریدنے کے لیے رکھے گئے تھے جسے اب تالے لگادیے گئے ہیں ، سندھ ماس اتھارٹی کے لیے صرف 30کروڑ روپے رکھے گئے ہیں،پورے سندھ کے لیے صرف 100ای وی بسیں رکھی گئیں ہیں ،پیپلزپارٹی نے 18سال میں صرف 300بسیں دیں ہیں جبکہ جماعت اسلامی کے سابق سٹی ناظم نعمت اللہ خان نے صرف 4سال میں 375بسیں شہر میں چلائی تھیں ،خواتین کو امپاور کرنے کے لیے 100ای وی موٹر سائیکلیں دی جارہی ہیں ، کراچی کے شہری اپنے بیٹوں کو موٹر سائیکل چلانے کی اجازت نہیں دے رہے کیونکہ آئے رو ز ہیوی ٹریفک اور ڈمپر کی ٹکر سے ہلاکتیں ہورہی ہیںویسے ہی کراچی میں اس وقت 45لاکھ موٹر سائیکلیں موجود ہیں،سندھ حکومت کو بی آرٹی ریڈ لائن منصوبہ مکمل کرنا چاہیئے تھاجو نہیں ہوسکا،2022میں بی آر ٹی کا آغاز ہوا تھا جسے 2024میں مکمل ہونا تھا لیکن اب 2028تک کردیا گیا ، کراچی کو ماس ٹرانزٹ نظام ،لائٹ ٹرین ،میٹرو ٹرین ،سرکلر ریلوے کی ضرورت ہے ۔

انہوں نے کہاکہ انرجی و انفارمیشن ٹیکنالوجی سولر ہوم سسٹم کے لیے 11.9ارب روپے مختص کیے گئے ہیں جو کراچی میں تو تقسیم نہیں ہورہے کہاں خرچ ہورہے ہیں ۔کراچی میں پیپلزپارٹی کے ضلعی صدورسولر سسٹم پر کاروبار کررہے ہیں جس کے حوالے سے شواہد بھی موجود ہیں،سندھ انفارمیشن ٹیکنالوجی کمپنی کے لیے 40کروڑ روپے مختص کیے گئے ہیں،یہ کون سی کمپنی ہے ،کسے یہ رقم دی گئی ہے کوئی اس بارے میں نہیں جانتا اور صرف40کروڑ روپے سے آئی ٹی میں کیافروغ ملے گا ۔

لاء انفورسمنٹ کے لیے 224ارب روپے رکھے گئے ہیں،صوبے سمیت کراچی کی مخدوش ترین صورتحال ہے ،اس پر بھی کرپشن کے جن کا قبضہ ہے ،سیف سٹی پروجیکٹ تاحال نامکمل ہے ، کچے اور پکے کے ڈاکوؤں کا راج ہے ،سندھ پیپلز ہاؤسنگ فار فلڈکی مد میں 12لاکھ گھر بنائے جائیں گے ،جس میں سے 5لاکھ 60ہزار گھر بنادیے گئے ہیںاور3لاکھ سے زائد گھر تقسیم بھی کردیے گئے ہیں،یہ گھر کہاں بنے ہیں ، کس کو دیے ہیں اور کتنے پیسوں کے عوض دیے گئے ہیں کسی کو نہیں معلوم۔

شہر کا سب سے بڑا مسئلہ کے الیکٹرک ہے ،پیپلزپارٹی کے الیکٹرک کو کنٹرول نہیں کررہی یا کنٹرول نہیں کرنا چاہتی ، کے الیکٹرک پیپلزپارٹی کی ساکھ کو بری طرح خراب کررہی ہے کیونکہ اس حوالے سے پیپلزپارٹی کچھ نہیں کررہی ،سندھ حکومت نے شعبہ آئی ٹی کے لیے 1.33بلین روپے اور جنگلات کے لیے 3.5بلین روپے مختص کیے ،انفارمیشن ٹیکنالوجی سے جنگلات بہت زیادہ اہم ہیں،گزشتہ سال سی ایم ہاؤس کے لیے چائے اور بسکٹ کے اخراجات کے لیے 1ارب 32کروڑ روپے کا بجٹ مختص کیا تھا جسے ریوائس کر کے 1ارب 62کروڑ روپے کردیا گیا تھا۔موجودہ بجٹ میں سی ایم ہاؤس کی کیبنٹ کی چائے اور بسکٹ کے لیے سالانہ 1ارب 34کروڑ79لاکھ 47ہزار روپے مختص کیے گئے ،گورنر ہاؤس کے لیے 1ارب 18کروڑ 71لاکھ 84ہزار روپے مختص کیے گئے ہیں۔
Live بجٹ 26-2025ء سے متعلق تازہ ترین معلومات