اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 25 جون 2025ء) شمالی کوریا نے ایران کے تین اہم جوہری مقامات پر امریکی حملوں کی مذمت کرتے ہوئے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ پر ایران کی علاقائی سالمیت اور اقوام متحدہ کے چارٹر کی خلاف ورزی کا الزام لگایا۔
یونہاپ نیوز ایجنسی کے مطابق، شمالی کوریا کی وزارت خارجہ نے کہا، "انصاف پسند بین الاقوامی برادری کو امریکہ اور اسرائیل کے تصادم کی کارروائیوں کے خلاف متفقہ مذمت اور مسترد کرنے کی آواز اٹھانی چاہیے۔
"شمالی کوریا کا وفد ایران کے غیر معمولی دورے پر
پیونگ یانگ نے اس سے قبل ایران کے خلاف اسرائیل کے میزائل حملوں کو ''گھناؤنی کارروائی‘‘ قرار دیا تھا۔
شمالی کوریا اور ایران کا اتحاد
جوہری ہتھیاروں سے لیس شمالی کوریا نے ایران کے ساتھ دوستانہ تعلقات برقرار رکھے ہیں۔
(جاری ہے)
کئی دہائیوں سے، تہران اور پیونگ یانگ کے درمیان مبینہ طور پر فوجی تعاون جاری ہے، جس میں بیلسٹک میزائلوں کی تیاری بھی شامل ہے، جسے ایرانی سائنسدانوں نے مبینہ طور پر مزید بہتر بنا لیا ہے۔
تقریباً 20 سال پہلے، شمالی کوریا نے گہری سرنگوں کی مہارت رکھنے والے انجینئروں کو تہران بھیجنا شروع کیا۔
میزائلوں کی تیاری کے لیے ایران اور شمالی کوریا میں مبینہ تعاون
سن انیس سو پچاس میں تین سالہ کوریائی جنگ شروع ہونے کے بعد سے، شمالی کوریا نے اپنی زیادہ تر اہم فوجی صلاحیتوں کو زیر زمین اڈوں میں چھپا رکھا ہے۔
'آپریشن مڈ نائٹ ہیمر' میں امریکہ کی طرف سے ایرانی اہداف پر گرائے جانے GBU-57 "بڑے پیمانے پر آرڈیننس پینیٹریٹر" ہتھیاروں کے اثرات کو مدنظر رکھتے ہوئے پیونگ یانگ حکومت اپنے زیر زمین بنکروں کی صلاحیتوں کا تعین کرنے کی خواہشمند ہو گی۔
جمہوریہ کوریا کی فوج کے ایک ریٹائرڈ لیفٹیننٹ جنرل اور اب نیشنل انسٹی ٹیوٹ فار ڈیٹرنس اسٹڈیز کے سینئر فیلو چن ان بوم نے کہا، "ایران میں کیا ہو رہا ہے وہ اس کو یقینی طور پر بہت قریب سے دیکھ رہے ہیں۔"
’ایران اور شمالی کوریا میزائل ٹیکنالوجی کی تجارت میں مصروف‘
انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، "مجھے یقین ہے کہ شمالی کوریا جو نتیجہ اخذ کرے گا وہ یہ ہو گا کہ انہیں اپنے جوہری ہتھیاروں کی صلاحیت کو تیز کرنے کی ضرورت ہے، اور انہیں اپنے ذخیرہ کرنے والے علاقوں کو مزید مضبوط کرنے کی ضرورت ہے۔
"چن نے مزید کہا کہ شمالی کوریا کو اضافی حفاظتی اقدامات، مثلاﹰ بہتر فضائی دفاع اور جوابی کارروائیاں اپنانے کی ضرورت ہے۔
پیونگ یانگ کا مذاکرات کا امکان نہیں
یہ پوچھے جانے پر کہ کیا ایسے حملوں کا کوئی امکان ہے جو پیانگ یانگ کو مذاکرات کی طرف لوٹنے کی ترغیب دیتے ہوں، چن نے کہا، "بالکل نہیں، یہ ان کی فطرت میں نہیں ہے۔
"انہوں نے کہا، اس کے باوجود، شمالی کوریا بھی یقینی طور پر ٹرمپ انتظامیہ کی "فیصلہ کن نوعیت" پر باقی دنیا کی طرح حیران تھا۔
چن نے کہا، "یہ ایک ایسا امریکہ ہے جسے ہم نے طویل عرصے سے نہیں دیکھا اور اس نے شمال کو حیران کر دیا ہو گا۔"
"اب وہاں ترجیح اس بات کو یقینی بنانا ہو گی کہ ان کے ساتھ بھی ایسا نہ ہو، اسی لیے مجھے یقین ہے کہ وہ اپنے ہتھیاروں کے پروگرام کا باریک بینی سے جائزہ لے رہے ہوں گے اور اسے تیز کر رہے ہوں گے۔
"حماس کا سات اکتوبر کا حملہ: ایران، شام اور شمالی کوریا کے خلاف مقدمہ
سیئول کی ایوا وومنز یونیورسٹی میں بین الاقوامی مطالعات کے پروفیسر لیف ایرک ایزلی نے کہا کہ تاہم پیانگ یانگ کو اس بات کا علم ہو گا کہ ملک کے جغرافیہ، اتحادیوں کی قربت اور دونوں ممالک کے جوہری پروگرام کی حیثیت کے لحاظ سے اس کی صورتحال تہران سے بالکل مختلف ہے۔
انہوں نے کہا، "پیانگ یانگ کا جوہری پروگرام بہت زیادہ ترقی یافتہ ہے، جس میں ہتھیار ممکنہ طور پر متعدد ڈیلیوری سسٹمز بشمول آئی سی بی ایم لانچ کے لیے تیار ہیں۔" انہوں نے مزید کہا"کِم جونگ اُن کی حکومت امریکی سرزمین کے لیے خطرہ بن سکتی ہے، اور سیئول شمالی کوریا کے مختلف قسم کے ہتھیاروں کے دائرے میں ہے۔"
انہوں نے کہا کہ ایران کے معاملے میں، اسرائیل نے جارحانہ طور پر تہران کی اسٹریٹیجک اور حکمت عملی کی غلطیوں کا فائدہ اٹھایا۔
اس کے لیے اس نے ایران کے فضائی دفاع، اعلیٰ ترین اہلکاروں اور جوابی صلاحیتوں کو کم کرنے کے لیے اعلیٰ ذہانت، ٹیکنالوجی اور تربیت کا استعمال کیا۔"ایزلی کا کہنا تھا، "شمالی کوریا ایران کی غلطیوں سے سیکھے گا، جنوبی کوریا اسرائیل کے مقابلے میں زیادہ خطرے سے دوچار ہے، اور چین اور روس تہران کے مقابلے میں پیانگ یانگ کی مدد کے لیے بہتر پوزیشن میں ہیں۔
"روس کا ایران اور شمالی کوریا کے ساتھ رابطہ
ایزلی نے کہا کہ شمالی کوریا کے رہنما کم جونگ ان جدید ترین ہتھیار اور ٹیکنالوجی حاصل کرنے کے لیے اور اپنی حکومت کو محفوظ رکھنے کے لیے کافی حد تک روسی صدر ولادیمیر پوٹن کے ساتھ اپنے اتحاد پر بھی انحصار کریں گے۔
انہوں نے کہا،"یہ کوئی اتفاق نہیں ہے کہ ماسکو نے امریکی حملوں کے بعد ایران کے وزیر خارجہ کی میزبانی کرنے میں جلدی کی، اور پوٹن نے سرگئی شوئیگو کو کم جونگ اُن سے ملاقات کے لیے پیانگ یانگ بھیجا، جب کہ جی سیون کے رہنما کینیڈا میں ملاقات کررہے تھے۔
"ایزلی کے مطابق "ایران اور شمالی کوریا کے ساتھ روس کی ہم آہنگی یہ ظاہر کرتا ہے کہ کس طرح متعدد خطوں میں سکیورٹی تیزی سے مربوط ہوئی ہے۔"
تاہم، چن کا خیال ہے کہ کم کی ترجیح اپنی ذاتی حفاظت اور واحد موروثی کمیونسٹ آمریت کے مستقبل کو یقینی بنانا ہے۔
"وہ ٹرمپ کے اس بیان پر سخت پریشان ہو گئے ہوں گے کہ امریکی فوج کو معلوم تھا کہ ایرانی سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کہاں چھپے ہوئے ہیں اور وہ تہران میں حکومت کی تبدیلی کے حامی ہیں۔
"چن نے کہا، "اب بھی، کم اپنے مقام اور نقل و حرکت کے متعلق راز داری کو برقرار رکھنے کی وجہ سے، 'ممکنہ قاتلانہ حملے ' کے خطرے سے کافی حد تک محفوظ ہیں۔"
ریٹائرڈ لیفٹیننٹ جنرل چن کا کہنا تھا، "مجھے یقین ہے کہ وہ اس رازداری کو برقرار رکھیں گے اور اس بات کو یقینی بنائیں گے کہ ان کے ٹھکانے کی معلومات زیادہ سے زیادہ محدود رہے۔"
ج ا ⁄ ص ز (جولین رایل)