Live Updates

مخصوص نشستیں کیس، لگتا ہے پی ٹی آئی میں کوآرڈینیشن کا فقدان تھا، جسٹس محمد علی مظہر

دیکھنا ہے الیکشن کمیشن نے آئین سے روگردانی کی یا سپریم کورٹ کے اکثر یتی فیصلے نے،جسٹس امین الدین،11 رکنی آئینی بینچ نے ا لیکشن کمیشن کے فیصلے کے خلاف دائر نظرثانی کی درخواستوں پر سماعت کی

Faisal Alvi فیصل علوی جمعرات 26 جون 2025 15:50

مخصوص نشستیں کیس، لگتا ہے پی ٹی آئی میں کوآرڈینیشن کا فقدان تھا، جسٹس ..
اسلام آباد(اردوپوائنٹ اخبار تازہ ترین۔26جون 2025)سپریم کورٹ میں مخصوص نشستیں کیس کی سماعت کے دوران جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دئیے ہیں کہ لگتا ہے پی ٹی آئی میں کوآرڈینیشن کا فقدان تھا، سپریم کورٹ آف پاکستان میں مخصوص نشستوں سے متعلق اہم آئینی کیس کی سماعت جاری ہے، الیکشن کمیشن کے فیصلے کے خلاف دائر نظرثانی کی درخواستوں پر بحث کی جا رہی ہے۔

چیف جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 11 رکنی فل بینچ کیس کی سماعت کر رہا ہے پی ٹی آئی کے وکیل سلمان اکرم راجا نے دلائل دئیے۔وکیل سلمان اکرم راجا نے کہا کہ میں سندھ ہائیکورٹ بار کیس کے فیصلے کا حوالہ دینا چاہتا ہوں یہ فیصلہ مثال ہے کہ عدالت آئین بحالی کیلئے مداخلت کرتی رہی ہے۔ 3 نومبر کی ایمرجنسی کے بعد کئی اقدامات کئے گئے۔

(جاری ہے)

سپریم کورٹ نے اس ایمرجنسی کو غیر آئینی کہا۔

اس ایمرجنسی کے بعد کئے گئے تمام اقدامات بھی کالعدم کئے گئے۔سپریم کورٹ آئین کی بحالی کیلئے مداخلت کا اختیار رکھتی ہے اور غلط اقدامات کو درست کرنے کیلئے فیصلے دے چکی ہے۔سلمان اکرم راجہ نے دلائل میں کہا کہ الیکشن ایکٹ کا سیکشن 66 واضح کرتا ہے کہ پارٹی ٹکٹ کیلے کسی تیسرے فریق کی اجازت ضروری نہیں صرف سیاسی جماعت کی جانب سے جاری کردہ ٹکٹ کافی ہوتا ہے۔

سلمان اکرم راجا نے مشرف دور کی ایمرجنسی کالعدم قرار دینے کا فیصلہ پڑھ کر سنایا۔ انہوں نے کہا کہ عدالت نے قرار دیا کہ ایمرجنسی کے بعد لگائے گئے ججز کی حیثیت نہیں تھی۔ عدالت نے ججز کو ہٹائے جانا بھی غلط قرار دے کر بحال کیا۔ الیکشن ایکٹ سیکشن 66 کے مطابق کسی بھی پارٹی کا امیدوار بننے کیلئے 2 اصول ہیں۔جسٹس محمد علی مظہر نے سوال کیا کہ کیا امیدواروں نے پارٹی ٹکٹ جمع کرانے کا کوئی ثبوت دیا؟ جس پر وکیل نے کہا کہ جمع کرائے گئے اور ججز کی اکثریت نے انہیں تسلیم بھی کیا۔

جسٹس جمال مندوخیل نے پوچھا کہ اکثریتی فیصلے میں اس پر آبزرویشنز شامل ہیں؟ جواباً سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ فیصلے میں تفصیل موجود ہے، وقت کی قلت کے باعث مکمل نہیں پڑھ رہا۔جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ کتنے امیدواروں نے مینشن کیا کہ ان کا تعلق پی ٹی آئی سے ہے؟ سلمان اکرم راجا نے بتایا کہ الیکشن کمیشن نے جو ریکارڈ پیش کیا اس کے مطابق 39 نے مینشن کیا۔

جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ آپ کہتے ہیں 39 آپ کی اس 80 کی لسٹ سے لیا گیا ہے۔ یہ ریکارڈ یا ثبوت عدالت کے سامنے پہلے نہیں تھے۔ وکیل نے کہا کہ  میں نے وہ لسٹ اپنی سی ایم اے کے ساتھ فائل کی ہے۔جسٹس مندوخیل نے کہا کہ بقیہ 41 بھی بیان حلفی دے سکتے تھے۔ سلمان اکرم راجہ نے جواب دیا کہ تمام دستاویزات جمع کرائی گئیں اور سب نے وابستگی ظاہر کی تھی۔

جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ آپ سیکڑوں ڈاکومنٹس فائل کر سکتے ہیں، آپ کو کوئی روک نہیں سکتا۔جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دئیے کہ اگر کوئی شخص پارٹی ٹکٹ فائل کرنے میں ناکام ہو وہ آزاد تصور ہو گا۔جسٹس امین الدین نے کہا کہ یہ پرائیویٹ ریکارڈ ہے، پبلک دستاویزات نہیں۔ جسٹس حسن اظہر رضوی نے پوچھا کہ پی ٹی آئی نے بطور جماعت کوئی اقدام کیا تھا؟ وکیل نے کہا کہ آزاد حیثیت میں الیکشن لڑنے کے اقدامات کو چیلنج کیا گیا تھا۔

جسٹس محمد علی مظہر نے پوچھا کہ یہ ذاتی کیس ہے یا پی ٹی آئی کا؟ وکیل نے جواب دیا کہ 24 دسمبر 2023 کو الیکشن کمیشن نے کہا کہ پی ٹی آئی جماعت نہیں، یہی بنیاد اس مسئلے کی ہے۔جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ سپریم کورٹ کسی سیاست دان کو آزاد الیکشن لڑنے سے کیسے روک سکتی ہے؟۔ فرض کریں عمران خان، نواز شریف، آصف زرداری، بلاول بھٹو یا مولانا فضل الرحمن پارٹی کے بڑے لیڈرز ہیں۔

اگر ان میں سے کوئی کہے ہم نے آزاد الیکشن لڑنا ہے تو ہم کیسے انہیں روک سکتے ہیں؟۔جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دئیے کہ پارٹی نشان نہ ملنے سے سیاسی جماعت کی رجسٹریشن ختم نہیں ہوتی۔ پی ٹی آئی امیدواروں نے سنی اتحاد کونسل میں شمولیت کی لیکن سنی اتحاد کونسل کو پارلیمنٹ میں موجود ہی نہیں تھی۔جسٹس مسرت ہلالی نے پوچھا کہ آپ نے انٹراپارٹی الیکشن دوبارہ کیوں نہیں کرائے؟ وکیل نے کہا کہ کرائے گئے مگر وہ بھی چیلنج ہو گئے۔

انہوں نے کہا کہ 22 دسمبر کو انتخابی نشان سے محروم کیا گیا اور 23 کو مخصوص نشستوں کی فہرستوں کو مسترد کیا گیا۔ کاغذات نامزدگی جمع کرانے کی آخری تاریخ پر پی ٹی آئی کی وابستگی مسترد ہوئی تو عدالت سے رجوع کیا۔جسٹس مندوخیل نے ریمارکس دئیے کہ الیکشن کمیشن کے ریکارڈ پر آپ کی کوئی فہرستیں نہیں۔ وکیل نے کہا کہ الیکشن کمیشن فہرستیں نہیں لے رہا تھا ہم نے ویب سائٹس پر اپلوڈ کیں، لاہور ہائیکورٹ گئے، پھر اسکروٹنی کی مدت میں توسیع ملی۔

دلائل مکمل ہونے پر سینئر وکیل حامد خان روسٹرم پر آئے اور کہا کہ انہیں 23 سے چھٹی دی گئی ہے۔ جس پر جسٹس امین نے کہا کہ آپ سینئر ہیں، لیکن سارے دلائل مکمل ہو چکے، اور آپ تیسرے وکیل ہیں۔ حامد خان نے کہا کہ اگر عدالت التوا کی درخواست مسترد کرتی ہے تو آگاہ کر دیں، جس پر بینچ نے التوا کی درخواست مسترد کر دی۔

Live عمران خان سے متعلق تازہ ترین معلومات