عالمی برادری غزہ اور جموں و کشمیر میں مظالم کے جرائم کو روکنے میں ناکام رہی ہے، پاکستان
بدھ 2 جولائی 2025
16:37
اقوام متحدہ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 02 جولائی2025ء) پاکستان نے کہا ہے کہ ’’تحفظ کی ذمہ داری ‘‘جسے کبھی عالمی عزم کے طور پر پیش کیا جاتا تھا، جس کا مقصد نسل کشی سمیت مظالم کے جرائم کو روکنا اور اقدامات کرنا ہے، کو منتخب اطلاق، د وہرے معیار اور سیاسی بنانے کے ذریعے بے معنی کر دیا گیا ہے۔ اقوام متحدہ میں پاکستان کےنائب مستقل نمائندہ عثمان جدون نےاقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں آر 2 پی کی متنازعہ ڈاکٹرائن پر مباحثے میں حصہ لیتے ہوئے کہا کہ غزہ، بھارت کے غیر قانونی زیر تسلط جموں و کشمیر اور دیگر بے شمار حالات اس کے اخلاقی دیوالیہ پن کی گواہی دیتے ہیں اور دنیا کے سب سے زیادہ کمزور لوگوں کے تحفظ کے لیے ایک قابل اعتماد، اصولی اور غیر جانبدارانہ نقطہ نظر کی فوری ضرورت ہے ۔
(جاری ہے)
(آر 2 پی کا تصور، جس کی جنرل اسمبلی نے 2005 میں توثیق کی تھی، تین ستونوں پر منحصر ہے جس کے تحت ہر ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی آبادیوں کی حفاظت کرے،بین الاقوامی برادری کی ذمہ داری ہے کہ وہ ریاستوں کی اپنی آبادیوں کے تحفظ میں مدد کرے اور جب کوئی ریاست اپنی آبادیوں کے تحفظ میں واضح طور پر ناکام ہو رہی ہو تو اس کی حفاظت کے لیے بین الاقوامی برادری کی ذمہ داری ہے)۔
پاکستانی مندوب عثمان جدون نے مندوبین کو بتایا کہ تحفظ کی نام نہاد ذمہ داری، جو کبھی عالمی اخلاقی فرض کے طور پر پیش کی جاتی تھی، اب فراموش کر دی گئی ہے ۔ پاکستانی مندوب نے کہا کہ غزہ اس اخلاقی دیوالیہ پن کو ظاہر کر رہا ہے،وہ لوگ جنہوں نے کبھی آر 2 پی کے بارے میں تقریروں میں بتاتے تھے ، اب وہ احتساب کے بنیادی مطالبات میں بھی رکاوٹ ڈال رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ جب اصولوں کو صرف وہاں لاگو کیا جاتا ہے جہاں طاقت کی اجازت ہوتی ہے، وہ اب اصول نہیں رہے بلکہ محض سیاست کے آلات ہیں ۔ انہوں نے اس بات کی نشاندہی کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیل کی وحشیانہ فوجی مہم میں 55 ہزار سے زیادہ فلسطینی شہید ہو چکے ہیں جن میں زیادہ تر خواتین اور بچے شامل ہیں جبکہ ایک لاکھ سے زیادہ زخمی ہوئے ہیں۔ پورے محلوں کے محلوں کو مسمار کر دیا گیا، ہسپتالوں کو تباہ کر دیا گیا اور انسانی ہمدردی کے کارکنوں کو منظم طریقے سے نشانہ بنایا گیا ، قحط کو جنگی ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے اور یہ سب کچھ پوری دنیا کے سامنے آ رہا ہے۔
پاکستانی مندوب نے زور دے کر کہا کہ غزہ اس اخلاقی دیوالیہ پن کو ظاہر کر رہا ہے۔ پاکستانی مندوب نے کہا کہ دوسری طرف بھارت کے غیر قنانوی زیر تسلط جموں و کشمیر میں تقریباً 9 لاکھ بھارتی فوجیوں نے دہائیوں سے دہشت گردی کی مہم چلائی ہے، ماورائے عدالت قتل، جبری گمشدگیاں، من مانی حراستیں اور نظامی امتیازی سلوک معمول بن چکا ہے۔ نفرت انگیز ہندوتوا نظریے کے عروج نے اس بحران کو مزید گہرا کر دیا ہے جس سے مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کو قتل عام، ہجوم کے حملے میں اموات اور نسل کشی کے کھلے عام اعلان کردہ دھمکیوں کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ انسانی حقوق کے معتبر بین الاقوامی اداروں کی طرف سے انتباہات کو نظر انداز کر دیا گیا ہے جس سے ان مظالم کو بغیر کسی روک ٹوک کے جاری رکھا جا سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بھارت نے 6 اور 7 مئی 2025 کی غیر قانونی جارحیت میں شہری علاقوں کو نشانہ بنایا جس میں 15 بچوں سمیت 35 شہری مارے گئے۔پاکستان نے جواب میں انتہائی تحمل سے کام لیتے ہوئے اپنے اقدامات کو صرف تصدیق شدہ فوجی اہداف تک محدود رکھا۔
پاکستانی مندوب نے کہا کہ بین الاقوامی برادری بار بار تنازعات کی بنیادی وجوہات کو حل کرنے میں ناکام رہی ہے، تشدد کے زور پکڑنے سے پہلے اقدامات کرنے کے مواقع کھو چکے ہیں۔بحرانوں پر ردعمل ظاہر کرنے کی بجائے ریاستوں اور اداروں کو پیشگی انتباہی نظام، جامع پالیسیوں اور قانونی تحفظات میں سرمایہ کاری کرنی چاہیے جو پسماندگی اور امتیازی سلوک کو روکتی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ان ساختی محرکات سے نمٹے بغیر مظالم اور جرائم ترقی کرتے رہیں گے۔ روک تھام اختیاری نہیں ہے ، یہ ہمارے پاس سب سے زیادہ موثر لیکن سب سے زیادہ نظرانداز شدہ آلہ ہے۔ آخر میں پاکستانی مندوب نے کہا کہ اگر آر 2 پی کو کسی اعتبار کو برقرار رکھنا ہے تو اسے عالمی سطح پر جغرافیائی سیاسی آلے کے طور پر نہیں بلکہ انسانی وقار اور تحفظ کے لیے ایک حقیقی عزم کے طور پر لاگو کیا جانا چاہیے۔