اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 04 جولائی 2025ء) افغانستان کی طالبان حکومت نے جمعرات کو کہا کہ روس اس کی حکومت کو تسلیم کرنے والا پہلا ملک بن گیا ہے۔
یہ اعلان افغانستان کے وزیر خارجہ امیر خان متقی نے جمعرات کو کابل میں افغانستان میں روس کے سفیر دمتری ژیرنوف سے ملاقات کے بعد کیا۔
افغان طالبان کو اب ماسکو میں اپنے سفیر کی تعیناتی کی اجازت
ایکس پر پوسٹ کی گئی ایک ویڈیو میں متقی نے کہا، ’’یہ جراؑت مندانہ فیصلہ دوسروں کے لیے ایک مثال ہو گی... اب جب کہ طالبان حکومت کو تسلیم کرنے کا عمل شروع ہو چکا ہے، روس سب سے آگے ہے۔
‘‘امیر خان متقی نے مزید کہا کہ روسی فیڈریشن کا یہ حقیقت پسندانہ فیصلہ دونوں ملکوں کے تعلقات کی تاریخ میں ایک اہم پیشرفت کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔
(جاری ہے)
افغان وزارت خارجہ کے مطابق روسی سفیر نے اس فیصلے کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے اسے افغانستان اور روس کے درمیان تعلقات کو مضبوط بنانے کے لیے ایک تاریخی قدم قرار دیا۔
طالبان اب روس کے لیے دہشت گرد کیوں نہیں رہے؟
روس کی وزارت خارجہ نے ٹیلیگرام ایپ پر اس ویڈیو کو شیئر کرتے ہوئے ایک بیان میں کہا،’’ہم سمجھتے ہیں کہ امارت اسلامیہ افغانستان کو باضابطہ طور پر تسلیم کرنے کا عمل ہمارے ممالک کے درمیان متعدد شعبوں میں نتیجہ خیز دو طرفہ تعاون کو فروغ دے گا۔
‘‘روس متعدد امور میں طالبان کی مدد کرے گا
اس پیش رفت کے بعد روسی وزارت خارجہ نے کہا کہ اس اقدام سے کابل کو دہشت گردی اور منشیات کی اسمگلنگ سے نمٹنے میں مدد ملے گی، جبکہ اقتصادی تعاون کو بھی فروغ ملے گا۔
افغانستان نے کئی دہائیوں سے عدم استحکام دیکھا ہے، جس میں امریکہ اور دیگر افواج کی 20 سالہ جنگ بھی شامل ہے۔
یہ اس وقت ختم ہوا جب امریکہ نے 2021 میں اپنی فوجیں واپس بلا لیں۔رواں برس اپریل میں روس نے تقریباً 20 سال کے بعد افغان طالبان کو ’دہشت گرد تنظیموں‘ کی فہرست سے بھی نکال دیا تھا، جسے مبصرین نے عالمی سیاست کے لیے بےحد اہمیت کا حامل قرار دیا تھا۔
قبل ازیں روسی صدر ولادیمیر پوٹن نے 2024 میں طالبان کو ''دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اتحادی‘‘ کہا تھا۔
افغانستان کی پارلیمنٹ کی سابق رکن اور طالبان کی ناقد، مریم سلیمان خیل نے کہا، ’’یہ اقدام اس بات کا اشارہ کرتا ہے کہ اسٹریٹجک مفادات ہمیشہ انسانی حقوق اور بین الاقوامی قانون سے بالاتر رہیں گے۔‘‘
طالبان کی سفارتی پیش رفت
طالبان نے 2021 میں حکومت کا تختہ الٹنے کے بعد دوبارہ اقتدار پر قبضہ کر لیا اور اس کے بعد سے سخت اسلامی قانون نافذ کر دیا ہے۔
ماسکو نے اس سے قبل طالبان کو دہشت گرد تنظیموں کی فہرست سے نکال دیا تھا، اور اپنی حکومت کی طرف سے طالبان کے ایک سفیر کو قبول کیا تھا۔ جسے مبصرین نے عالمی سیاست کے لیے بےحد اہمیت کا حامل قرار دیا تھا۔
طالبان نے پہلے 1996 سے 2001 کے دوران افغانستان پر حکومت کی تھی، جب انہیں صرف سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور پاکستان نے تسلیم کیا تھا۔
اس دور کے دوران، چین اور پاکستان جیسی کچھ ریاستوں نے امارت اسلامیہ افغانستان کو سرکاری طور پر تسلیم کیے بغیر طالبان کے سفیروں کو قبول کیا تھا۔
افغان طالبان کی پہلی کامیابی، روس میں سفارت کار کی تقرری
اشرف غنی کی حکومت کے خاتمے کے بعد اگست 2021 میں اقتدار میں آنے والے افغان طالبان کی حکومت کو اقوام متحدہ اور بین الاقوامی برادری نے باضابطہ طور پر تسلیم نہیں کیا، کیونکہ انہوں نے افغانوں کی شہری آزادیوں پر قدغن لگا رکھی ہے، خاص طور پر خواتین اور لڑکیوں پر جس کی وجہ سے انہیں بین الاقوامی سطح پر تنقید کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
تاہم چین اور روس، جنہوں نے عبوری افغان انتظامیہ کے ساتھ محدود سفارتی تعلقات کو فروغ دینے پر آمادگی ظاہر کی تھی، گذشتہ دو سالوں میں افغان وزرا کو چین اور وسطی ایشیا کے فورمز میں شرکت کی دعوت دے چکے ہیں۔
ادارت: صلاح الدین زین