اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 04 جولائی 2025ء) امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جمعرات کے روز بتایا کہ انہوں نے اپنے روسی ہم منصب ولادیمیر پوٹن سے فون پر بات چیت کی، تاہم یوکرین کی جنگ کے حوالے سے بات چیت میں کوئی پیش رفت نہیں ہو سکی۔
ٹرمپ نے کہا کہ پوٹن کے ساتھ ایران اور یوکرین جیسے امور پر طویل گفتگو ہوئی اور کریملن کے مطابق یہ فون کال ایک گھنٹے سے بھی زیادہ وقت تک جاری رہی۔
اطلاعات کے مطابق امریکی صدر نے صدر پوٹن کے ساتھ بات چیت کے دوران یوکرین میں جنگ کو تیزی سے ختم کرنے پر زور دیا، تاہم تسلیم کیا کہ اس سمت میں کوئی پیش رفت نہیں ہو پائی۔
جرمن وزیر خارجہ کا غیراعلانیہ دورہ یوکرین
جمعرات کی شام کو آئیووا جاتے ہوئے ایئر فورس ون میں سوار ہونے سے پہلے صحافیوں سے بات چیت میں امریکی صدر نے کہا کہ وہ یوکرین کی جنگ سے "خوش نہیں ہیں۔
(جاری ہے)
انہوں نے صحافیوں کو بتایا کہ "یہ کافی طویل کال تھی، ہم نے ایران سمیت بہت سی چیزوں کے بارے میں بات کی اور جیسا کہ آپ جانتے کہ یوکرین کی جنگ کے بارے میں بھی بات ہوئی۔ اور میں اس سے خوش نہیں ہوں۔"
انہوں نے یہ بھی کہا کہ امریکہ نے یوکرین کو ہتھیاروں کی سپلائی روکی نہیں ہے، تاہم "ہمیں یہ یقینی بنانا ہو گا کہ ہمارے پاس اپنے لیے بھی کافی ہتھیار ہیں۔
"روس کے کییف پر بڑے ڈرون اور میزائل حملے، سات افراد ہلاک
روس نے فون کال کے بارے میں کیا کہا؟
کریملن نے اس بات چیت سے متعلق ایک بیان میں کہا کہ صدر ولادیمیر پوٹن ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ فون کال کے دوران یوکرین پر روس کے موقف پر مضبوطی سے قائم رہے۔
کریملن کا کہنا ہے کہ روسی صدر نے اس بات پر اصرار کیا کہ تنازعہ کی "بنیادی وجوہات" کو حل کرنے کی ضرورت ہے۔
بنیادی وجوہات سے ان کی مراد نیٹو کی توسیع اور کییف کے لیے مغربی حمایت کے معاملات ہیں۔کریملن کے معاون یوری اوشاکوف نے اس بارے میں صحافیوں کو بتایا کہ "روس پیچھے نہیں ہٹے گا۔" البتہ انہوں نے مزید کہا کہ پوٹن نے ٹرمپ کے ساتھ بات چیت کے دوران تنازعے کے سیاسی اور مذاکراتی حل تلاش کرنے کے لیے "آمادگی" کا اظہار بھی کیا۔
یوری یوشاکوف نے وضاحت کی کہ پوٹن اور ٹرمپ کے درمیان ہونے والی گفتگو میں یوکرین کے لیے امریکی ہتھیاروں کی فراہمی کا معاملہ سامنے نہیں آیا۔
یوکرین کے حکام نے بتایا کہ اس فون کال کے چند گھنٹوں کے اندر ہی روس نے کییف کے ایک شمالی مضافاتی علاقے پر ڈرون حملہ کیا، جس سے ایک عمارت میں آگ بھڑک اٹھی۔
نیٹو کیا ہے اور اسے کیوں بنایا گیا؟
کییف کے لیے امریکی ہتھیاروں میں کمی
جنوری میں جب سے ٹرمپ نے صدارت کی اپنی دوسری مدت شروع کی ہے، تب سے دونوں رہنماؤں کے درمیان فون پر یہ چھٹی بات چیت تھی اور یہ اسی دن ہوئی جب پینٹاگون نے تصدیق کی کہ وہ کییف کو کچھ ایسے ہتھیاروں کی فراہمی روک رہا ہے، جس میں فضائی دفاعی میزائل اور گائیڈڈ توپ خانے شامل ہیں۔
صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ کے دوران ان ہتھیاروں کی فراہمی کا وعدہ کیا گیا تھا۔ پینٹاگون نے یہ اعلان اس وقت کیا ہے، جب روس نے یوکرین پر اپنے حملے تیز کر دیے ہیں۔
پوٹن جرمن چانسلر اور یوکرین کے صدر سے ملاقات کے لیے تیار
اگرچہ ٹرمپ نے یوکرین جنگ میں ثالثی کی کوشش کی ہے، تاہم اب تک اس میں کوئی خاص پیش رفت نہیں ہوئی ہے۔
پوٹن غیر مشروط جنگ بندی کے لیے واشنگٹن کی تجویز کو بھی مسترد کر چکے ہیں اور کریملن کے بیان میں ان کی پوزیشن میں کسی تبدیلی کی تجویز بھی نہیں ہے۔اوشاکوف نے کہا کہ جب کہ روس امریکہ کے ساتھ بات چیت جاری رکھنے کے لیے تیار ہے، تاہم امن مذاکرات کی اصل ضرورت ماسکو اور کییف کے درمیان ہے۔
ٹرمپ اور زیلنسکی میں بات چیت کی توقع
امریکی ہتھیاروں کی اہم کھیپ کے رکنے کے بارے میں خدشات کے درمیان، یوکرین کے صدر وولودیمیر زیلنسکی کا کہنا ہے کہ وہ اپنے امریکی ہم منصب ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ جمعے تک بات کرنے کی امید رکھتے ہیں۔
واشنگٹن نے کم ذخیرے کا حوالہ دیتے ہوئے پیٹریاٹ میزائلوں اور دیگر اہم ہتھیاروں کی فراہمی روک دی ہے۔
بارہ سو سے زائد فوجیوں کی لاشیں یوکرین کے حوالے
ادھر کییف نے قائم مقام امریکی ایلچی کو طلب کر کے فوجی مدد جاری رکھنے کی فوری ضرورت پر زور دیا ہے۔ زیلنسکی نے یورپ پر زور دیا ہے کہ وہ دفاعی ٹیکنالوجی میں قیادت کرے اور ماسکو پر دباؤ برقرار رکھے۔
ڈنمارک میں خطاب کرتے ہوئے انہوں نے امن کو محفوظ بنانے میں مدد کے لیے مضبوط ٹرانس اٹلانٹک اتحاد اور سخت پابندیوں پر زور دیا۔
ادارت: جاوید اختر