Live Updates

مہنگائی اور بجلی و پٹرولیم مصنوعات کی بڑھتی ہوئے قیمتیں اس وقت ملک کے سب سے بڑے مسئلے ہیں‘سول سوسائٹی فورم

جمعہ 4 جولائی 2025 22:56

ملتان(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 04 جولائی2025ء) مہنگائی اور بجلی و پٹرولیم مصنوعات کی بڑھتی ہوئے قیمتیں اس وقت ملک کے سب سے بڑے مسئلے ہیں‘ محدود آمدنی میں ماہانہ بنیادوں پر ایک مختصر خاندان کی کفالت ناممکن ہوچکی ہے۔ بجلی و گیس کے یوٹیلیٹی بلز نے عام آدمی کی زندگی اجیرن کردی ہے اور اس سلسلے میں خودکشیوں کا تناسب تیزی سے بڑھ رہا ہے۔

سب ٹھیک ہے کا نعرہ اب ماضی کا حصہ بن چکا۔ اچھی تنخواہ کے باوجود دوسری نوکری کرنی پڑتی ہے تاکہ گھریلو اخراجات ادا ہوسکیں۔ لوگ گھر کا کرایہ ادا کریں، راشن خریدیں ' یوٹیلیٹی بلز جمع کرائیں یا بچوں کی تعلیم کے اخراجات پورے کریں۔ مسلسل بڑھتی ہوئی مہنگائی نے عوام کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے۔اس حوالے سے ملک بھر کی سول سو سائٹی میں گہری تشویش پاء جاتی ہے ان خیالات کا اظہار سول سوسائٹی فورم کے عہدیداران چیف ایگزیکٹیو خواجہ ضیا صدیقی۔

(جاری ہے)

صدر ڈاکٹر عرفان احمد پراچہ۔ چیف آگنائزر اورنگزیب خان بلوچ ایڈووکیٹ اور چیف کوارڈینیٹر شاہد محمود انصاری نے بجلی و پٹرول کی بڑھتی ہوئی قیمتوں اور بھاری ٹیکسوں کے حوالے سے عوامی مشکلات و تفکرات کے سلسلے میں منعقدہ فکری نشست میں اظہار خیال کرتے ہوئے کیا۔ سماجی رہنماؤں نے بجلی کی قیمت کا جائزہ لیتے ہوئے کہا کہ تین سال قبل بجلی اوسطاً 18 روپے فی یونٹ دستیاب تھی، جو کے 300 گنا تک اب بڑھ چکی ہے۔

اور یونٹوں کے ہیر ہھیر اور مساوی قیمتیں نہ ہونے سے عوامی مشکلات طوفان کی شکل اختیار کرچکی ہیں اسی طرح سوء گیس کی قیمت میں بھی ہوشربا اضافہ ہوا ہے اور گھریلو صارفین کے لیے 400 کیوبک میٹر گیس کا سلینڈر جو 1460 روپے میں دستیاب تھا آج اُس کی قیمت 3500 روپے سے زائد ہو چکی ہے۔ اسی طرح پٹرول کی قیمتوں میں روز بروز اضافہ عوامی کی پہنچ سے باہر ہوتا جا رہا ہے۔

پاکستان میں گزشتہ ڈیڑھ برس کے دوران اشیائے خوردونوش کی قیمتوں میں بھی بڑا اضافہ دیکھنے میں آیا۔ آٹا گھی اور چینی کی قیمتوں میں دوگنا اضافہ ہوا ہے۔ پاکستان میں مہنگائی کی وجوہات میں سے مس منیجمنٹ اور دوسری بڑی وجہ پاکستانی کرنسی کی قدر میں کمی ہے۔ مارچ 2022 میں ڈالر کی قیمت 172 روپے تھی جو اب 300 کے آس پاس ہے۔ ادارہ شماریات کے مطابق جنوری کے دوران ملک میں مہنگائی کی شرح میں 2.9 فیصد اضافہ ہوا اور ملک میں مہنگائی 27.6 فیصد کی سطح پر پہنچ گئی ہے۔

جبکہ ہفتہ وار مہنگائی کے اعداد و شمار کے مطابق ملک میں مہنگائی کی مجموعی شرح 30.60 فیصد ریکارڈ کی گئی۔ ایشیائی ترقیاتی بینک کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کی معیشت انتہائی کمزور ہو چکی ہے۔ افراط زر کی شرح 26.6 فیصد تک پہنچ چکی ہے جو دنیا کے 184 ممالک میں 19 ویں درجے پر ہے۔دوسری جانب حکومت کی ترجیحات بھی آئی ایم ایف کی کڑی شرائط سے منسلک نظر آتی ہیں۔

حالیہ بجٹ میں ٹیکس کی شرح میں وحشیانہ اضافہ عوام کو قبول نہیں۔ سولر سسٹم پر دس فیصد ٹیکس عائد کردینا کسی بھی طرح مناسب نہیں کہ عوام پہلے ہی بجلی کے بلز پٹرول کی قیمتوں میں اضافے سے پریشان ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت کو اس مہنگائی پر قابو پانے کے لیے اپنے درآمدی اور برآمدی کھاتوں کے رجحان کو بدلنا پڑے گا۔ توانائی کے ذرائع سمیت بہت سے لگژری آئٹمز کِو درآمد کیا جاتا ہے۔

حکومت کو انھیں سوچ سمجھ کر امپورٹ کرنا ہو گا۔ دنیا بھر میں ترقی یافتہ قوموں نے اپنے پیروں پر کھڑا ہونے کے لئے اجتماعی طور پر فیصلے کیے ہیں جس سے ملک اور قوم کو فائدہ پہنچے۔ پوری قوم قرض کے دلدل میں ڈوبی ہوئی ہے مگر ہم اپنے طور طریقے تبدیل کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ معاشی استحکام حاصل کرنے کے لئے ضروری ہے کہ پہلے پاکستان میں سیاسی استحکام قائم کیا جائے۔ حکومت اور اپوزیشن ایک دوسرے کو گرانے اور ہرانے کی ذاتی لڑائی اور رنجشوں سے باہر آئیں۔ ملک اور قوم کی بہتری کے لئے مل کر فیصلے کرنے اور عوامی ریلیف کے اقدامات کرنیکی ضرورت ہے۔
Live بجٹ 26-2025ء سے متعلق تازہ ترین معلومات