Live Updates

اردو زبان میں چھپنے والی کتابوں کے انتساب کے نئے انداز

DW ڈی ڈبلیو اتوار 6 جولائی 2025 12:20

اردو زبان میں چھپنے والی کتابوں کے انتساب کے نئے انداز

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 06 جولائی 2025ء) ڈی ڈبلیواردو کے ایک جائزے میں یہ بات سامنے آئی کہ اگرچہ اب بھی لوگ زیادہ تر اپنے دوستوں عزیزوں اور اساتذہ کے نام انتساب کرتے ہیں لیکن بہت سے لوگ ایسے بھی ہیں جو افراد کی بجائے اپنے جذبوں ، اپنے دکھوں اور اپنی یادوں کو انتساب کی شکل میں پیش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

ممتاز صحافی ، ادیب اور شاعر محمود شام نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ایک عرصے تک انتساب روایتی انداز میں لکھا جاتا رہا۔

پہلے پہل شاعر لوگ اپنی کتابوں کے انتساب ''محبوبہ‘‘ اور ''جان غزل‘‘ وغیرہ کے نام کرتے رہے ہیں۔ جب سے کتابوں میں سنجیدہ مواد نے جگہ لی ہے تب سے انتساب میں بھی تبدیلی نظر آنے لگی ہے۔ محمود شام نے اپنی کتاب میڈیا منظر کو اپنے کالج میگزینز کارواں (گورنمنٹ کالج جھنگ ) اور راوی (گورنمنٹ کالج لاہور) کے نام منسوب کیا ہے۔

(جاری ہے)

ان کی کتاب ''جہاں تاریخ روتی ہے‘‘ کو سندھ اور چناب کی لہروں کے نام موسوم کیا گیا ہے۔ ''بھارت میں بلیک لسٹ‘‘ ان کی کتاب کے انتساب میں لکھا ہے کہ پاکستان اور بھارت کے غریب اور مظلوم شہریوں کے نام جو کشیدگی سے پاک تعلقات کی راہ دیکھ رہے ہیں۔

نامور ادیب اور ناول نگار مستنصر حسین تارڑ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ انہوں نے اپنے کئی کتابوں کا انتساب اپنے ناول کے کرداروں کے نام کیے ہیں۔

اپنی کتاب ''پنجاب کا پہلا پیار‘‘ کو انہوں نے پنجاب کے پانچ دریاؤں کے نام منسوب کیا ہے کہ جن کے پانیوں نے ان کی تخلیق کی، کھیتی کو سدا سیراب کیا، ہمیشہ سرسبز رکھا کبھی بنجر نہ ہونے دیا۔'' میں عام طور پر انتساب لکھنے کے لیے زیادہ سوچ وچار نہیں کرتا۔ میں نے ایک طرف اپنی کچھ کتابوں کا انتساب اپنی اہلیہ، اپنے بچوں اوراپنے پبلشر نیاز احمد کے نام کیا ہے دوسری طرف میں نے اپنے ناولوں کے کرداروں کو بھی موسوم کیا ہے جیسے میری ایک کتاب کا انتساب دیوسائی نیشنل پارک کے ایک ریچھ کے نام ہے۔

میں نے حکومتی شخصیات کے نام انتساب کرنے سے ہمیشہ احتراز کیا ہے۔‘‘

پاکستانی پنجاب کے ضلح جہلم کے قصبے دینہ سے آبائی تعلق رکھنے والے ممتاز بھارتی ادیب اور شاعر گلزار نے اپنی کتاب ''چاند پکھراج کا‘‘ میں انتساب کے طور پر اپنی ایک غزل کا یہ شعر درج کیا ہے

ذکر جہلم کا ہے، بات ہے دینے کی

چاند پکھراج کا ، رات پشمینے کی

ڈاکٹر نبیلہ رحمان کے مطابق انتساب کی روایت بہت سی زبانوں میں موجود ہے جس طرح اسے انگریزی میں ''ڈیڈیکیشن‘‘ کہتے ہیں اسی طرح پنجاب میں اس کے لیے لفظ چڑھاوا بھی استعمال کیا جاتا ہے۔

جس طرح سندھ میں اجرک کی چادر پہنا کر دوسروں کو عزت دی جاتی ہے یا بہو بیٹیوں کو چادر دینے کا مطلب ان کی عزت اور احترام ہے اسی طرح انتساب میں یاد کی جانے والی شخصیت کو بھی عزت دینا مقصود ہوتا ہے۔

عبداللہ حسین نے اداس نسلیں کا انتساب مرحوم ابا جان کے نام کیا ہے۔ بانو قدسیہ نے فٹ پاتھ کی گھاس کو اشفاق احمد کے نام جبکہ اشفاق احمد نے اپنی ایک کتاب کو قدرت اللہ شہاب کے نام موسوم کیا ہے۔

عطا الحق قاسمی نے اپنیکتاب بلبلے کو پروفیسر فتح محمد ملک کے نام اور وصیت نامے کو انتظار حسین کے نام منسوب کیا ہے۔ امریتا پریتم نے اپنی کتاب ''چھبیس سال بعد ‘‘کا انتساب یوں کیا ہے ''اس کے نام جو میری زندگی کا حصہ بنا۔‘‘

پاکستان کے ممتاز نقاد اور ادیب محمد حمید شاہد نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ انتساب کے حوالے سے کوئی خاص اصول و ضوابط نہیں ہیں یہ مصنف کی ذاتی پسند اور اس کا ذاتی فیصلہ ہوتا ہے۔

محمد حمید شاہد نے سقوط ڈھاکہ کے پس منظر میں لکھے گئے اپنے ناول مٹی آدم کھاتی ہے کا انتساب اس آدمی کے نام کیا ہے جو زمین کی محبت میں دیوانہ ہو گیا۔ انہوں نے نائن الیون کے بعد کے پاکستان کے حوالے سے لکھے گئے اپنے ناول ''جنگ میں محبت کی تصویر نہیں بنتی‘‘ کا انتساب محبت کے نام کیا ہے۔

قدرت اللہ شہاب نے اپنی سوانح عمری شہاب نامہ کو اپنی ماں جی، عفت، ثاقب اور حبیب کے ساتھ ساتھ نائنٹی کے نام بھی موسوم کیا ہے۔

یاد رہے نائنٹی شہاب نامے میں مذکور ایک ایسا پر اسرار اور مافوق الفطرت کردار ہے جس کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ ان سے اس کی پر اسرار انداز میں خط و کتابت رہتی تھی۔

پاکستان میں نواز شریف حکومت کا تختہ الٹنے والے فوجی آمر جنرل پرویز مشرف نے اپنی کتاب ''سب سے پہلے پاکستان‘‘ کا انتساب ان پاکستانی عوام کے نام کرتے ہوئے لکھا ہے کہ جو وطن کے لیے بہت محنت کرتے ہیں قربانیاں دیتے ہیں، وطن کے لیے دعا گو رہتے ہیں اور ایک مخلص اور بے لوث قیادت ان کا حق ہے۔

جنرل مشرف نے اس انتساب میں اپنی والدہ کو بھی یاد رکھا ہے۔

کتابوں کے انتساب میں ایک نیا رجحان یہ بھی سامنے آ رہا ہے کہ لوگ اب رسمی انتساب کے ساتھ کوئی قول، شعر یار تعارفی پیرا بھی لکھ دیتے ہیں۔ جیسے رضا علی عابدی نے اپنی کتاب ''ریل کہانی‘‘ کو اپنے بچوں کے نام معنون کیا ہے لیکن اس کتاب کے شروع میں انہوں نے ایک اقتباس درج کیا ہے کہ ''جب سے ریل گاڑی چلی ہے لوگ اپنی بیٹیوں کو دور دور بیاہنے لگے ہیں۔

‘‘

احمد ندیم قاسمی نے اپنی کتاب دشت وفا میں یہ شعر لکھا:

اک کشتہ غم پہ مہربان ہو

تم کتنے عجیب حکمران ہو

کبھی کبھی تو یوں لگتا ہے کہ ادبی لوگ جس سے متاثر ہوتے ہیں اسی کے نام انتساب کر دیتے ہیں۔ اب اے حمید صاحب کو ہی لے لیجیے ان کی کتاب ''ناریل کا پھول‘‘ کا انتساب ہے ''عمران طاہر کے نام جو کہر آلود سرد شام کی بارش میں مجھ سے ملنے آیا۔

‘‘

ایک بہت دلچسپ معاملہ ڈاکٹر سلیم اختر کا ہے جنہوں نے اپنی کتاب کا انتساب خود اپنے ہی نام کر دیا ہے۔ ان کے طنزیہ مضامین کی کتاب کلام نرم و نازک کا انتساب کچھ اس طرح ہے۔

اپنے نام: بصد خلوص و احترام

بشیر ریاض نے ''رفاقت کا سفر بے نظیر یادیں‘‘ کے عنوان سے اپنی کتاب کے انتساب میں لکھا ہے کہ ہر اس آنکھ کے نام جو بی بی کی شہادت پر اشکبار ہوئی۔

چوہدری شجاعت حسین اور چوہدری پرویز الہی کے باہمی تعلقات آج کل کافی کشیدہ ہیں۔ شاید کچھ لوگوں کے لیے یہ بات حیرت کا باعث ہو کہ چوہدری شجاعت نے ''سچ تو یہ ہے‘‘ کے نام سے دو ہزار اٹھارہ میں جوکتاب لکھی اس کا انتساب چوہدری پرویز الہی کے نام کیا تھا اور پرویز الہی کے بارے میں انتساب میں لکھا تھا ''جو میرے عزیز از جاں بھائی بھی ہیں ، میرے بہترین دوست بھی ہیں، اور آغاز سیاست سے میرے سیاسی ہم سفر بھی ہیں۔

‘‘

محمد بشیر جمعہ نے میری منزل دور نہیں کے عنوان سے اپنی کتاب کا انتساب یوں لکھا ہے کہ ''غربت اور افلاس کے سمندروں سے نکلنے والے موتیوں کے نام۔‘‘

اگرچہ مارکیٹ میں ایسی بہت سے کتابیں بھی موجود ہیں جن پر انتساب نہیں لکھا گیا ہے۔ اوریٗنٹل کالج پنجاب یونیورسٹی کی پرنسپل پروفیسر ڈاکٹر نبیلہ رحمان نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ انتساب کوئی ادبی صنف نہیں ہے ، یہ مصنف کا ذاتی معاملہ ہے۔ ان کے نزدیک انتساب دوسروں کے لیے عقیدت، محبت اور احترام کے اظہار کا انداز ہے۔

ادارت: کشور مصطفیٰ

Live مون سون بارشیں سے متعلق تازہ ترین معلومات