کراچی میں بجلی کا بحران سنگین، اصلاحات کے مطالبات زور پکڑ گئے

دو دہائیاں قبل نجکاری کے ماڈل کے طور پر پیش کی جانے والی KE آج طویل لوڈشیڈنگ، ناقص سروس اور بلند نرخوں پر شدید تنقید کی زد میں ہے

ہفتہ 12 جولائی 2025 20:40

کراچی(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 12 جولائی2025ء)پاکستان کے سب سے بڑے شہر اور معاشی حب کراچی کو بدستور بجلی کے بدترین بحران کا سامنا ہے، جس کے باعث توانائی کے شعبے میں فوری اصلاحات کے مطالبات زور پکڑ رہے ہیں۔اکنامسٹ انٹیلی جنس یونٹ کی حالیہ عالمی رہائشی درجہ بندی میں کراچی کو دنیا کے ناقابلِ رہائش ترین شہروں میں شامل کیا گیا ہے۔

رپورٹ میں شہر میں پانی کی قلت، بے ہنگم توسیع، خستہ حال انفراسٹرکچر اور توانائی کی شدید قلت جیسے دیرینہ شہری مسائل کو اجاگر کیا گیا ہے۔ ایشیائی ترقیاتی بینک کے مطابق، پاکستان کے شہری مراکز تیزی سے غیر مثر، گنجان آباد اور ماحولیاتی لحاظ سے تباہ حال ہوتے جا رہے ہیں۔کراچی میں فی کس شہری سبزہ صرف 4.17 مربع میٹر ہے، جو عالمی ادار صحت کی تجویز کردہ کم از کم مقدار 9 مربع میٹر سے بھی کم ہے۔

(جاری ہے)

یہ صورتحال صحت عامہ اور ماحولیاتی بحران کو مزید سنگین بنا رہی ہے، جس کا سب سے زیادہ اثر غریب طبقے پر پڑتا ہے۔ان تمام مسائل کے درمیان، شہر کی غیر مستحکم بجلی کی فراہمی جو کہ صرف کی-الیکٹرک (KE) کے تحت ہے سب سے بڑا چیلنج بن چکی ہے۔ دو دہائیاں قبل نجکاری کے ماڈل کے طور پر پیش کی جانے والی KE آج طویل لوڈشیڈنگ، ناقص سروس اور بلند نرخوں پر شدید تنقید کی زد میں ہے۔

لاہور میں فی یونٹ بجلی کی قیمت 28.30 روپے ہے، جبکہ کراچی میں یہ 38.40 روپے ہے، اس کے باوجود شہری روزانہ 6 سے 8 گھنٹے کی لوڈشیڈنگ جھیلنے پر مجبور ہیں۔بجلی کی ترسیل اور تقسیم میں نقصانات بدستور بلند ہیں، کچھ علاقوں میں یہ 70 فیصد تک پہنچ چکے ہیں۔ نیپرا نے بارہا KE کی کارکردگی پر تحفظات ظاہر کیے ہیں، اور اس کی شفافیت، اسمارٹ میٹرز کے نفاذ میں تاخیر اور واجبات کی وصولی میں کمی کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔

ماہرین کے مطابق یہ صورتحال مزید نہیں چل سکتی، اور حکومت کو فوری طور پر ٹیرف اسٹرکچر کا جائزہ لے کر بجلی کے شعبے میں مقابلے کا ماحول پیدا کرنا ہوگا، اور کی-الیکٹرک کی قیادت و احتساب کے نظام کو ازسرنو مرتب کرنا ہوگا اس سے پہلے کہ کراچی کا بجلی بحران ناقابلِ واپسی ہوجائے۔