اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 16 جولائی 2025ء) خبر رساں ایجنسی روئٹرز نے ایگزیوس کے نامہ نگار باراک ریویڈ کے حوالے سے بتایا کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ غزہ جنگ بندی کے معاہدے پر بات کرنے کے لیے بدھ کے روز قطر کے وزیر اعظم شیخ محمد بن عبدالرحمن الثانی سے ملاقات کریں گے۔
اسرائیل اور حماس کے مذاکرات کار دوحہ میں چھ جولائی سے جنگ بندی مذاکرات کے تازہ ترین دور میں حصہ لے رہے ہیں۔
اس میں امریکی حمایت یافتہ تجویز پر بات چیت ہو رہی ہے، جس میں ساٹھ دنوں کی جنگ بندی کے دوران یرغمالیوں کی مرحلہ وار رہائی، غزہ کے کچھ حصوں سے اسرائیلی فوجیوں کا انخلاء اور تنازع کے خاتمے کے لیے مذاکرات کی بات کہی گئی ہے۔ٹرمپ کے مشرق وسطیٰ کے ایلچی اسٹیو وٹکوف نے اتوار کو کہا تھا کہ وہ قطر میں جنگ بندی مذاکرات کے سلسلے میں ''پرامید‘‘ ہیں۔
(جاری ہے)
امریکہ، قطر اور مصری ثالث ایک معاہدہ کو یقینی بنانے کے لیے کام کر رہے ہیں۔ تاہم، اسرائیل اور حماس فلسطینی انکلیو سے ممکنہ اسرائیلی انخلاء کی نوعیت پر منقسم ہیں۔
معاہدہ کے نکات پر اختلافات
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے گزشتہ دنوں کہا تھا کہ انہیں امید ہے کہ اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی کے لیے جاری مذاکرات جلد مکمل ہو جائیں گے۔
انہوں نے نامہ نگاروں کو بتایا، ''ہم بات کر رہے ہیں اور امید ہے کہ ہم اگلے ہفتے مقصد حاصل کر لیں گے۔‘‘ایک اسرائیلی اہلکار نے بھی کہا کہ بات چیت جاری ہے، لیکن اس نے سست پیش رفت کے لیے حماس کو ذمہ دار ٹھہرایا، اور انہیں ''ضدی‘‘ قرار دیا اور کہا کہ وہ ان شرائط پر رضامندی کے لیے تیار نہیں جن سے معاہدے تک پہنچنے میں مدد ملے۔
دوسری جانب حماس نے کہا ہے کہ اسرائیلی مطالبات اس میں بنیادی رکاوٹ ہیں۔خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق حماس نے اسرائیل کی اس تجویز کو مسترد کر دیا ہے جس کے تحت غزہ کا تقریباً 40 فیصد حصہ اسرائیلی کنٹرول میں چلا جائے گا، جس میں رفح کا جنوبی علاقہ اور کچھ شمالی اور مشرقی حصے شامل ہیں۔ حماس مبینہ طور پر چاہتی ہے کہ مارچ میں تنازعہ بڑھنے سے پہلے اسرائیل سابقہ جنگ بندی میں طے شدہ سرحدوں پر واپس آجائے۔
حماس نے کہا ہے کہ وہ باقی یرغمالیوں کو صرف اسی صورت میں رہا کرے گی جب جنگ کے خاتمے کے لیے کوئی واضح معاہدہ ہو جائے۔ اسرائیل کا مطالبہ ہے کہ تمام یرغمالیوں کی رہائی کے بعد ہی لڑائی رکے گی اور غزہ میں حماس کو ایک فوجی قوت اور ایک گورننگ باڈی کے طور پر ختم کر دیا جائے گا۔
سابقہ جنگ بندی
گزشتہ دو ماہ کی جنگ بندی اس وقت ختم ہو گئی تھی جب اسرائیل نے اٹھارہ مارچ کو دوبارہ حملے شروع کردیے تھے۔
ٹرمپ نے اس سال کے اوائل میں غزہ کو امریکی کنٹرول میں لینے کی ایک متنازع تجویز پیش کی تھی، جس پر انسانی حقوق کے ماہرین، اقوام متحدہ اور فلسطینیوں نے نکتہ چینی کی تھی۔
ریویڈ نے ایک ذریعہ کا حوالہ دیتے ہوئے مزید کہا کہ ٹرمپ اور شیخ محمد کے درمیان امریکہ اور ایران کے درمیان مذاکرات کو دوبارہ شروع کرنے کی کوششوں کو ایک نئی منزل تک پہنچانے کے لیے بھی بات چیت متوقع ہے۔
ادارت: صلاح الدین زین