اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 16 جولائی 2025ء) امریکی کانگریس میں انسانی حقوق سے متعلق 'ٹام لینٹوس ہیومن رائٹس کمیشن' میں منگل کے روز پاکستان سے متعلق سماعت ہوئی، جس میں پاکستان کے سابق وزیر اعظم عمران خان کے سابق معاون سید ذوالفقار بخاری کو اپنا موقف پیش کرنے کے لیے سب سے پہلے مدعو کیا گیا۔
بخاری نے اس موقع پر دعویٰ کیا کہ عمران اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کے خلاف سیاسی طور پر 200 کے قریب مقدمات درج ہیں۔
انہوں نے الزام لگایا کہ پاکستان میں "بنیادی حقوق معطل کر دیے گئے" اور میڈیا کو خاموش کر دیا گیا ہے جبکہ "زبردستی" ترامیم کے ذریعے عدالتی آزادی کو بھی مجروح کیا گیا ہے۔اجلاس میں پاکستان کی جمہوری رفتار کے بارے میں دیرینہ خدشات کو اجاگر کیا گیا اور بعض ممکنہ ہدفی پابندیوں سمیت پالیسیوں میں تبدیلی کی بات کہی گئی۔
(جاری ہے)
دونوں امریکی جماعتوں کی مشترکہ سماعت کے دوران پاکستان میں شہری آزادیوں اور سیاسی آزادیوں پر توجہ مرکوز کی گئی، سیاسی جبر، اقلیتوں پر ظلم و ستم اور بیرون ملک منتشر افراد کو خاموش کرانے کی کوششوں پر تبادلہ خیال ہوا۔
جو حضرات کمیشن کے سامنے پیش ہوئے ان میں ذوالفقار بخاری کے علاوہ ایمنسٹی انٹرنیشنل کے یورپ اور وسطی ایشیا کے ایڈووکیسی ڈائریکٹر بین لنڈن شامل ہیں۔
اس میں پرسیئس اسٹریٹیجیز کے منیجنگ ڈائریکٹر جیراڈ جینسر اور افغانستان امپیکٹ نیٹ ورک کے بانی صادق امینی نے بھی حصہ لیا۔پابندیاں عائد کرنے کی سفارش
ٹام لینٹوس ہیومن رائٹس کمیشن (ٹی ایل ایچ آر سی) کے شریک سربراہ ایچ سمتھ نے کہا انسانی حقوق اور مذہبی لحاظ سے تفریقی سلوک پر، "قطع نظر اس کے کہ وائٹ ہاؤس میں کون ہے، سب سے بڑی مایوسی کی بات یہ ہے کہ محکمہ خارجہ میں اس پر پابندیوں کا فقدان ہے۔
"اسمتھ نے یاد دلایا کہ اس حوالے سے بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی وہ واحد شخص ہیں، جن پر سن 2002 کے گجرات فسادات کے بعد امریکہ کے مذہبی آزادی کے قوانین کے تحت پابندیاں عائد کی گئی تھیں۔
انہوں نے کہا، "ہم اس پر محکمہ خارجہ کے دفتر سے (پابندیاں) لگانے پر غور کرنے کے لیے آواز دینے جا رہے ہیں، خاص طور پر مختلف مذاہب کے لوگوں کے خلاف کی جانے والی خوفناک کارروائیوں کی روشنی میں۔
"پاکستان کی موجودہ سیاسی اور انسانی حقوق کی صورتحال پر سماعت کے دوران اسمتھ نے کہا کہ "ہمیں یہاں 18 قسم کی پابندیاں ملی ہیں اور ہم انہیں آپ پر عائد کرنے جا رہے ہیں۔"
ٹی ایل ایچ آر سی گرچہ براہ راست پابندیوں کی سفارش نہیں کرتا، تاہم اسمتھ کے بیان کو ایک اشارہ کے طور پر دیکھا جا رہا ہے اور اگر موجودہ رجحانات یونہی برقرار رہے تو ایسے اقدامات زیر غور بھی ہو سکتے ہیں۔
ڈیموکریٹک رکن کانگریس جیمز میک گورن نے اس موقع پر کہا، "میساچوسٹس میں ایک متحرک پاکستانی کمیونٹی ہمہ وقت مجھ سے رابطے میں رہتی ہے اور واضح طور پراس وقت ہماری حکومت کی طرف سے آنے والے اشاروں سے وہ پریشان ہیں۔"
پاکستان میں سیاسی ماحول کے بارے میں بات کرتے ہوئے میک گورن نے مزید کہا، "انہیں (امریکی حکام کو) یہ جاننے کی ضرورت ہے کہ لوگ دیکھ رہے ہیں۔
انہیں یہ جاننے کی ضرورت ہے کہ ہم جو سن رہے ہیں، ہمیں وہ پسند نہیں ہے۔"پاکستان میں مذہبی آزادی پر سوال
ایمنسٹی کے بین لنڈن نے اپنے موقف کو پیش کرتے ہوئے صوبہ بلوچستان کی صورتحال پر خاص طور پر تشویش کا اظہار کیا اور کہا کہ "ڈاکٹر مہرنگ اور دیگر بلوچ نظربندوں کو رہا کیا جانا چاہیے" اس سے ایک روز قبل ایمنسٹی انٹرنیشنل کے ایک خط میں بلوچستان کے وزیر اعلیٰ سرفراز بگٹی سے مطالبہ کیا گیا تھا کہ وہ "تمام زیر حراست بلوچ کارکنوں کو رہا کریں"۔
لنڈن نے خبردار کیا کہ پی ٹی آئی کے حامیوں کے خلاف حالیہ کریک ڈاؤن کو بنیادی حقوق پر وسیع تر حملے کے تناظر میں دیکھا جانا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ احمدیوں اور دیگر مذہبی اقلیتوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے جبکہ مقامی حکام ان کی حفاظت میں ناکام رہتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا، "مبہم الفاظ میں توہین مذہب کے قوانین کو اکثریتی مذہبی گروہوں کی طرف سے ہتھیار بنایا جا رہا ہے، جبکہ ملزمان کے پاس اپنے دفاع کے لیے بہت کم ذرائع ہیں۔
"انہوں نے پاکستان کی فوج پر تنقید کرنے والے امریکہ میں قائم یوٹیوب چینلز کو بلاک کرنے کی بھی مذمت کی اور اس اقدام کو "مکمل طور پر ناقابل قبول" قرار دیا۔
حکومت سے بات کرنے کی تجویز
البتہ کمیشن کے سامنے جیراڈ جینسر نے کہا کہ کسی بھی حکومت کے ساتھ اس طرح برتاؤ نہیں کیا جاتا ہے اور ان کے ساتھ مشغول ہونے کی ضرورت ہے۔
ان کا کہنا تھا، "صدر ٹرمپ اور وزیر خارجہ مارکو روبیو کے لیے واضح طور پر بس یہی کہنا کافی نہیں ہے کہ ہم پاکستان کے ساتھ مضبوط تعلقات چاہتے ہیں، بلکہ تعلقات کی مضبوطی کے لیے کیا کرنا ہے، یہ بتانا بھی بہت ضروری ہے۔ اور اس میں عمران خان اور دیگر سیاسی قیدیوں کی رہائی بھی شامل ہے۔"
انہوں نے نوٹ کیا: "ہمیں اس المیے کے بارے میں بات کرنے کی ضرورت ہے جو آج پاکستان میں انسانی حقوق کے حوالے سے ہے۔ پاکستانی تارکین وطن امید کی کرن ہیں۔"
میک گورن نے اس پر اتفاق کیا اور کہا، "ہمیں بات کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں مشغول ہونے کی ضرورت ہے۔ اور ہمیں سیاسی قیدیوں، عمران خان کے مستقبل کے بارے میں بات کرنے کی ضرورت ہے۔"
ادارت: جاوید اختر