اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 16 جولائی 2025ء) جنوبی بھارت کی ریاست کیرالہ سے تعلق رکھنے والی نرس نمیشا پریا کی موت کی سزا پر بدھ سولہ جولائی کو عمل درآمد ہونا تھا۔ اس پر یمن میں تاجر طلال عبد المہدی کو قتل کرنے کا الزام ہے۔
انہیں سزائے موت سے بچانے کے لیے متعدد حلقوں کی طرف سے متعدد کوششیں جاری ہیں۔ اس میں بھارتی حکومت اور سعودی عرب میں مقیم ایجنسیوں کی کوششیں بھی شامل ہیں۔
حالانکہ بھارتی حکومت نے چند دنوں قبل کہا تھا کہ اس نے اپنی مقدور بھر کوششیں کرلی ہیں۔دو روز قبل ایک معروف بھارتی عالم دین اور کیرالہ کے مفتی اعظم شیخ ابوبکر احمد نے یمن کی شوریٰ کونسل میں اپنے ایک دوست اور معروف یمنی عالم شیخ عمر بن حافظ سے ثالثی کرنے اور متاثرہ خاندان کو دیت قبول کرنے کے لیے راضی کرنے کے لیے رابطہ کیا۔
(جاری ہے)
متاثرہ خاندان نے چند گھنٹے کے لیے پھانسی کو روکنے پر رضامندی ظاہر کی، جس سے پریا اور ان کی قانونی ٹیم کو نئی امید ملی۔
تاہم بھارتی میڈیا میں شائع تازہ ترین خبروں کے مطابق مقتول کے بھائی عبدالفتاح مہدی نے کہا کہ مبینہ قاتل کو معاف نہیں کیا جائے گا اور ان کی موت کی سزا پر عمل درآمد ہونا چاہیے۔
عبدالفتاح نے بھارتی میڈیا کے رویے پر بھی اپنے خاندان کی شدید ناراضگی کا اظہار کیا، جو ان کے بقول’’مجرم کو ایک مظلوم کے طور پر پیش کرنے کے لیے حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کر رہا ہے۔
‘‘دیت کے لیے راضی کرنے کی کوششیں
بھارتی میڈیا کے مطابق وزارت خارجہ کے حکام نے تصدیق کی ہے کہ پس پردہ ’’مسلسل اور خاموش‘‘ کوششیں جاری ہیں۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ ایسا لگتا ہے کہ سب سے بڑی رکاوٹ خاندان کو اس سانحے اور اس کے مضمرات کو سمجھنا ہے، اور ایک بار یہ ہو جانے کے بعد دیت کی رقم حوالے کر دی جائے گی۔
ایک اور مسئلہ یہ ہے کہ یمن کے دارالحکومت صنعا پر حوثی باغیوں کا کنٹرول ہے، جن کے ساتھ بھارت کا سرکاری طور پر رابطہ نہیں ہے۔
دریں اثنا، معلوم ہوا ہے کہ مذاکرات کا اگلا دور دیت کے گرد مرکوز ہو گا۔
کیرالہ کے ارب پتی تاجر ایم اے یوسف علی نے مکمل مالی مدد کرنے کی پیش کش کی ہے۔
میڈیا رپورٹوں کے مطابق مبینہ طور پر بھارت نے مقتول کے خاندان کو ''دیت‘‘ کی رقم کے طور پر ایک غیر معمولی رقم کی پیشکش کی ہے۔
ذرائع نے کہا،’’ہم نے کہا کہ اگر دیت کی رقم دو کروڑ ہے، تو ہم 20 کروڑ ادا کریں گے لیکن پھر بھی خاندان راضی نہیں ہوا۔‘‘نمیشا پریا کو موت کی سزا کیوں ملی؟
نمیشا پریا، ایک نرس ہیں،جو ایک منافع بخش ملازمت کی تلاش میں 2008 میں یمن گئی تھیں۔
ابتدائی طور پر، انہوں نے ہسپتالوں میں کام کیا لیکن بعد میں اپنا کلینک کھولا اور مقامی قوانین کی تعمیل کرنے کے لیے یمنی شہری طلال عبدل مہدی کو اپنا کاروباری پارٹنر بنایا۔
لیکن مہدی نے مبینہ طور پر انہیں ہراساں کرنا شروع کر دیا، اس کے پیسے اور پاسپورٹ چوری کر لیے- پریا نے 2017 میں مہدی کو خواب آور انجکشن لگایا تاکہ بیہوش ہونے کے بعد اپنا پاسپورٹ حاصل کرسکے۔ لیکن مہدی کی موت ہو گئی اور پریا کو یمن چھوڑنے کی کوشش کرتے ہوئے گرفتار کر لیا گیا۔
یہ کیس پورے بھارت اور خاص طور پر کیرالہ میں خبروں میں رہا ہے۔ جہاں انسانی حقوق کے گروپوں نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ پریا کو وطن واپس لانے کے لیے کوششیں تیز کرے۔
ادارت: صلاح الدین زین