ترقی پذیر ممالک کی توانائی کی بڑھتی ہوئی ضروریات پورہ کرنے میں مدد کےلئے مزید فنڈنگ کی ضرورت ہے، پاکستان

جمعرات 17 جولائی 2025 17:20

ترقی پذیر ممالک کی  توانائی کی بڑھتی ہوئی ضروریات پورہ کرنے میں مدد ..
اقوام متحدہ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 17 جولائی2025ء) پاکستان نے پائیدار ترقی کےا ہداف میں ہدف نمبر 7 (ایس ڈی جی 7) کے حصول کے لئے اپنے عزم کا اعادہ کرتے ہوئےاس بات پر زور دیا ہے کہ ترقی پذیر ممالک خاص طور پر قرض کی فراہمی کے بحران کا سامنا کرنے والے ممالک کے لئے اپنی آبادی کی غیر معمولی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے مزید فنڈنگ کی ضرورت ہے۔

پائیدار ترقیاتی اہداف میں سے ہدف نمبر 7 کا مقصد سب کے لئے سستی اور صاف توانائی تک رسائی کو یقینی بنانا ہے۔ اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب عاصم افتخار احمد نے گزشتہ روز ایس ڈی جی 7 پر پیش رفت کا جائزہ لینے والے اقوام متحدہ کے اعلیٰ سطحی سیاسی فورم ( ایچ ایل پی ایف ) کے پینل کو بتایا کہ جب پاکستان کی بات آتی ہے تو ہم توانائی کی عالمی منتقلی کی فوری ضرورت اور موقع دونوں کی بات کرتے ہیں ۔

(جاری ہے)

پاکستان گروپ آف فرینڈز آف سسٹین ایبل انرجی کا شریک چیئرمین ہے جس کی توجہ ایس ڈی جی 7 پر مرکوز ہے جو ان کی قومی ترقی کی ترجیحات اور وسیع تر عالمی ایجنڈے سے ہم آہنگ ہے۔ اقتصادی اور سماجی کونسل کے زیراہتمام منعقد ہونے والا اقوام متحدہ کا اعلیٰ سطحی سیاسی فورم ( ایچ ایل پی ایف ) ،ممالک کو پائیدار ترقیاتی اہداف (ایس ڈی جی ) بشمول ایس ڈی جی 7 کی طرف اپنی پیش رفت سے مطلع کرنے کا پلیٹ فارم فراہم کرتا ہے۔

پاکستانی مندوب نے کہا کہ 2024 میں پاکستان میں تقریباً 40 ملین افراد بجلی کی رسائی سے محروم رہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم اپنے آلودگی سے پاک توانائی کے عزائم میں ثابت قدم ہیں اور اس سلسلے میں پاکستان نے 2030 تک 60 فیصد بجلی قابل تجدید طریقوں سے حاصل کرنے کا ہدف مقرر کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے انرجی روڈ میپ سے 13 گیگاواٹ نئی ہائیڈرو پاور کے اضافہ کی توقع ہے جبکہ جوہری توانائی قابل اعتماد، کم کاربن بیس لوڈ پاور فراہم کر رہی ہے ۔

پاکستانی مندوب نے کہا کہ پاکستان میں خاموش شمسی انقلاب بھی جاری ہے، جو کم درآمدی ٹیرف، سستی ٹیکنالوجی اور نیٹ میٹرنگ کی پالیسیوں کے ذریعے بروئے کار لایا جا رہا ہے۔انہوں نے کہا کہ بہت سے ترقی پذیر ممالک کی طرح، پاکستان کو بھی محدود مالیاتی گنجائش کا سامنا ہے، جس سے توانائی کی بڑھتی ہوئی ضروریات کو پورا کرنے کی صلاحیت محدود ہے۔

ہماری توانائی کی منتقلی کے لئے 2030 تک 100 بلین ڈالر سے زیادہ کی سرمایہ کاری کی ضرورت ہوگی۔ پاکستانی مندوب نے کہا کہ دنیا کو 2030 تک توانائی اور آب و ہوا کے اہداف کو پورا کرنے کے لئے سالانہ 4.3 ٹریلین ڈالر سے زیادہ کی سرمایہ کاری کرنی ہوگی۔ اس کے باوجود، اس منظر نامے میں ترقی پذیر ممالک کے لئے سرکاری ماحول دوست توانائی کی مالی اعانت صرف 21.6 بلین ڈالر ہے، جس میں اس مالیات کا 83 فیصد حصہ قرض کے معاہدوں پر مشتمل ہے۔

مزید برآں صاف توانائی کی سرمایہ کاری ترقی یافتہ اور پختہ ابھرتی ہوئی مارکیٹوں کے لئے زیادہ ہے اور ترقی پذیر ممالک اکثر پیچھے رہ جاتے ہیں۔اس تناظر میں پاکستانی مندوب نے کہا کہ بین الاقوامی تعاون ایک ٹھوس فرق پیدا کر سکتا ہے جس میں ترقی پذیر ممالک کے لئے نہ صرف فنڈنگ کو مزید بڑھانا شامل ہے بلکہ نجی سرمایہ بھی بہت اہم ہے جو فی الحال کم خطرے اور زیادہ واپسی کی ترتیب میں بہت زیادہ ہے ۔

ہمیں ترقی پذیر ممالک میں قابل عمل بینکاری منصوبوں کی تیاری، ڈھانچہ اور ڈیلیور کرنے کے ساتھ ساتھ صاف توانائی کی سرمایہ کاری کو خطرے سے بچانے کے لئے جدید طریقہ کار کو بڑھانے کی ضرورت ہے۔ پاکستانی مندوب نے کہا کہ توانائی کے مسائل کے حل کو مشترکہ فوائد کے لئے ڈیزائن کیا جانا چاہیے جیسا کہ 2022 میں پاکستان میں تباہ کن سیلاب کے باعث اقوام متحدہ کے تقریاتی پروگرام (یو این ڈی پی ) کے ساتھ شراکت میں 2,200 سے زیادہ متاثرہ گھرانوں میں سولر کٹس تقسیم کی گئی تھیں جو نہ صرف بجلی تک رسائی کو بحال کرنے میں مدد کرتی ہیں بلکہ نقل و حرکت میں بھی معاونت کرتی ہیں اور بہتر صحت اور آب و ہوا کے لئے تعاون کرتی ہیں۔