اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 20 جولائی 2025ء) ''پندرہ دن تک تو یہاں کے لوگ بہت ڈرے ہوئے تھے۔ وہ بار بار آنے والے زلزلوں کے بعد اپنے گھروں سے باہر نکل آتے تھے۔‘‘ یہ الفاظ تھے کراچی کے ایک گنجان آباد علاقے قائد آباد میں واقع نواز شریف اسکیم کے رہائشی محمد حسین کے، جو انہوں نے ایک ایسی دیوار کی جانب اشارہ کرتے ہوئے ادا کیے، جس پر زلزلے کے جھٹکوں کی وجہ سے ایک طویل دراڑ نمودار ہوچکی تھی۔
یکم سے 23 جون تک قائدآباد، ملیر اور لانڈھی کے رہائشی مسلسل خوف کا شکار رہے کیونکہ اس دوران 50 سے زائد کم شدت کے زلزلے رونما ہوئے، جن کی ریکٹر اسکیل پر شدت دو سے 3.6 تک تھی۔ تاہم آخری چند زلزلوں کی شدت تین یا اس سے زائد تھی جن کے اثرات ڈیفینس ہاؤسنگ سوسائٹی اور اطراف میں بھی محسوس کیے گئے۔
(جاری ہے)
مخصوص علاقے ہی زلزلے کے جھٹکوں سے متاثر کیوں؟
ارضی ارتعاش کے ان واقعات نے کئی سوالات کو جنم دیا کہ آخر کیا وجہ ہے کہ کراچی کے چند علاقوں میں ہی زلزلے کے جھٹکے محسوس کیے جار ہے ہیں؟ کیا ان کی وجہ ارضیاتی رخنے (جیولاجیکل فالٹس) ہیں یا بورنگ کے زریعے زیر زمین پانی نکالنے کا وہ عمل ہے، جو ایک عرصے سے اس شہر میں جاری ہے؟
2022 ء میں نانیانگ ٹیکنالوجیکل یونیورسٹی کے ماہرین نے درجنوں ساحلی شہروں کا جائزہ لیتے ہوئے کہا کہ کراچی کے بعض علاقے سالانہ چند ملی میٹر کی شرح سے دھنس رہے ہیں۔
لیکن اگر کوئی زلزلہ آیا تو پہلے سے نیچے جاتے علاقوں میں زیادہ نقصانات ضرور ہوسکتے ہیں، لیکن انہیں زلزلوں کی براہِ راست وجہ قرار نہیں دیا جاسکتا۔اگرچہ کراچی میں بہت بڑے زلزلوں کا تاریخی حوالہ نہیں ملتا اور یہاں زلزلوں کی تاریخ بھی درست انداز میں مرتب نہیں کی گئی۔ تاہم 893 یا 894 عیسوی میں کراچی کے نزدیک ایک ایسے بڑے زلزلے کے شواہد ضرور ملتے ہیں، جس سے دریائے سندھ کے ڈیلٹا کے کنارے موجود شہر دیبل تباہ ہوگیا تھا!
1991ء میں ہیروشیما یونیورسٹی کے پروفیسر تاکاشی نکاتا کی ٹیم نے'ایکٹو فالٹس آف پاکستان‘ نامی دستاویز میں پاکستان بھر میں زلزلے کی وجہ بننے والے رخنوں کا ذکر کیا، جس میں انہوں نے کراچی کے نزدیک دس کلومیٹر طویل ٹھٹھہ فالٹ، ہالیجی فالٹ اور کراچی میں دو کلومیٹر طویل کورنگی فالٹ لائنز کو سرگرم قرار دیا ۔
اب ماہرین کورنگی کو لانڈھی فالٹ لائن کہتے ہیں، جو حالیہ زلزلوں کی وجہ قرار پایا ہے۔خوابیدہ فالٹ لائن میں سرگرمی
محکمہ موسمیات کراچی کے چیف میٹریالوجسٹ امیرحیدر لغاری نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ 'لانڈھی فالٹ لائن‘ 2009 ء سے سرگرم ہے، جہاں ہلکے اور درمیانے درجے کے زلزلے آتے رہتے ہیں۔ انہوں نے اس بارے میں وضاحت کرتے ہوئے کہا، ''فالٹ لائن جتنی طویل ہوگی زلزلہ اتنا ہی شدید ہوگا، مثلاً 2004ء میں انڈونیشیا میں آنے والے سونامی کی فالٹ لائن 1200 کلومیٹر طویل تھی ، جبکہ لانڈھی فالٹ لائن کی لمبائی صرف دو کلومیٹر ہے اور اسی لیے ہم کم شدت کے زلزلے دیکھ رہے ہیں۔
‘‘تاہم انہوں نے خبردار کیا کہ یہ فالٹ لائن زیادہ سے زیادہ چار درجے کی شدت کا زلزلہ لاسکتی ہے۔
امیرحیدرلغاری کے مطابق لانڈھی فالٹ لائن کے باعث سال 2009 ء کے تین ماہ میں 36 زلزلے نوٹ کیے گئے تھی، جن کی ریکٹر اسکیل پر شدت 2.2 سے 2.8 تک تھی۔ اس ماہری موسمیا ت کے مطابق دو ہزار نو ہی وہ سال تھا، جب لانڈھی فالٹ لائن ایکٹو ہوئی تھی۔
اسی طرح 2010 میں پانچ سے چھ زلزلے آئے یہاں تک کہ اگلے کئی برس تک زلزلے آتے رہے اور اب 2025 ء میں یہاں غیرمعمولی سرگرمی نوٹ کی گئی ہے۔جانی و مالی نقصانات کے خدشات
جیالوجیکل سروے آف پاکستان کے سابق ڈائریکٹر آصف رانا کے مطابق زلزلوں کے خطرات کے حوالے سے کراچی سیسمک زون ٹوبی میں شامل ہے۔ یہاں درمیانے یا کم درجے کے زلزلوں کے خدشات موجود ہیں، تاہم ناقص تعمیرات اور بلڈنگ کوڈ پر عمل نہ کرنے کی صورت میں جانی و مالی نقصان بڑھ سکتا ہے۔
ارضیات دانوں کی اکثریت اس امر پر متفق ہے کہ کسی فالٹ لائن پر کم شدت کے زلزلے سودمند ہوتے ہیں کیونکہ اس طرح اس لائن پر اسٹریس یا دباؤ کم ہوسکتا ہے اور بڑے سانحے کے خطرات کم ہوجاتے ہیں۔ آصف رانا کا ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہنا تھا، ''کراچی میں بڑے زلزلوں کے خطرات تو کم ہیں لیکن ایک سال میں پانچ ہلکے زلزلے اس شہر میں آتے ہیں جبکہ کراچی کے گرد 300 کلومیٹر کا دائرہ کھینچا جائے تو گزشتہ دس برس میں ریکٹر اسکیل پر چار یا اس سے زیادہ شدت کے 53 زلزلے ریکارڈ ہوچکے ہیں۔
‘‘رانا کے مطابق 1984ء میں کراچی ، حیدرآباد اور لسبیلہ کے مقام پر بھی چند نئی فالٹ لائنز سامنے آئیں، جن کی وجہ کراچی کی آرک اور کیرتھر فولڈ بیلٹ تھا۔
اس تناظر میں کراچی اور اطراف میں زلزلوں پر وسیع سروے اور سائنسی تحقیق کی ضرورت ہے۔
پاکستان کے ممتاز ماہرِ ارضیات اور کنگ عبدالعزیز یونیورسٹی کے سابق پروفیسر نیر عالم ضیغم نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ کسی بھی جگہ زلزلے کے بعد وہاں کے مطالعے یا 'پوسٹ ارتھ کوئیک ریسرچ‘ کی اشد ضرورت ہے اور اسی صورت میں اس ارضی آفت کو بہتر سمجھا جاسکتا ہے۔
خطرات اور احتیاطی تدابیر
ماہرین کے مطابق زمین بدلی نہیں جاسکتی۔ اسی لیے ضروری ہے کہ حفاظتی اقدامات کو یقینی بنایا جائے، جس طرح جاپانی بچوں کو زلزلے کی ڈرل کرائی جاتی ہے وہی تربیت ان علاقوں کے لیے لازمی قرار دی جائے۔ دوسری جانب تعمیرات کو زلزلہ جاتی معیارات کے تحت بنانے کی ضرورت ہے۔
اسی طرح زلزلے کی صورت میں کھلے میدان کا رخ کیا جائے جہاں، بل بورڈز یا بجلی کی تاریں موجود نہ ہوں۔ ضروری ہے کہ لانڈھی، کورنگی، گڈاپ اور قائدآباد وغیرہ میں بعض مقامات مخصوص ہوں جہاں لوگ زلزلے کے بعد جمع ہوسکیں۔ امیر حیدر لغاری کے مطابق بار بار آنے والے زلزلوں کے جھٹکوں سے عمارتیں کمزور ہوسکتی ہیں، جن کی مستقبل دیکھ بھال اشد ضروری ہے۔