اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 20 جولائی 2025ء) برطانوی تاریخ دان رفائیل ساموئیل کی مرتب کردہ کتاب ہسٹری اینڈ پولیٹکس میں مورخین نے برطانیہ میں وطن پرستی کے نظریے کی بنیاد پر اس کی تاریخ کا تجزیہ کیا ہے کہ کن حالات، واقعات اور حادثات کی وجہ سے یہ جذبہ پیدا ہوتا ہے۔ وطن پرستی اس وقت معاشرے میں جڑ پکڑتی ہے جب ملک کو کسی حملے کا خطرہ ہوتا ہے۔
کیونکہ اس صورت میں نہ صرف غیر ملکیوں کے قابض ہونے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے اور فاتح لوٹ کھسوٹ کر کے عوام کو اپنا غلام بنا لیتے ہیں۔1588 میں جب اسپین نے اپنا بحری بیڑا برطانیہ پر حملے کے لیے بھیجا تو اس خبر نے لوگوں میں ڈر و خوف اور دہشت پیدا کر دی۔ عام لوگوں میں وطن پرستی کا جذبہ اُمڈ آیا لیکن بحری بیڑے کی تباہی نے برطانیہ کو محفوظ کر دیا۔
(جاری ہے)
انگلستان اور کیتھولک ملکوں کے درمیان دشمنی ہو گئی تھی۔
برطانیہ کو یہ خطرہ رہا کہ فرانس اور آئرلینڈ مل کر اس پر حملہ کریں گے۔ اس صورت میں وطن پرستی کا جذبہ تھا جو برطانیہ کی حفاظت کر سکتا تھا۔جب فرانس میں 1789 میں انقلاب آیا تو اس نے بادشاہت اور امراء کا خاتمہ کیا اور نئی اصلاحات کے ذریعے اپنے معاشرے میں فرسودہ روایات کو ختم کیا۔ عوام میں وطن پرستی اور انقلابی جذبات کو پیدا کیا اور عام لوگوں نے یورپی حملہ آوروں کا مقابلہ کر کے اپنے ملک کا دفاع کیا۔
فرانسیسی انقلاب کا اثر برطانیہ پر بھی ہوا۔ ورکنگ کلاس کی ایک جماعت نے یہ مہم شروع کی کہ ان کے ہاں بھی انقلاب آنا چاہیے جو بادشاہت اور امراء کے طبقے کو ختم کر کے عام لوگوں کو ان کے حقوق دے۔جب فرانسیسی سپہ سالار نپولین نے یورپ میں فتوحات شروع کیں تو اس کا ایک منصوبہ یہ تھا کہ برطانیہ پر حملہ کر کے اس پر قابض ہو جائے۔
اس خبر نے لوگوں میں مختلف خیالات کو پیدا کیا۔ ورکنگ کلاس کی ایک جماعت کا کہنا تھا کہ اگر نپولین اس ملک پر قبضہ کرتا ہے تو اس سے ہم غریبوں اور مزدوروں کی حالت تو نہیں بدلے گی اور تبدیلی صرف یہ ہو گی کہ عام لوگوں کو نئے آقا کا وفادار ہونا ہو گا۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ عام لوگ اپنی ریاست اور ظلم و ستم سے خوش نہ تھے۔ ان میں وطن پرستی کا جذبہ سرد ہو گیا تھا۔ہسٹری اینڈ پولیٹکس کے مصنفین نے خاص طور سے برطانیہ میں ہونے والے وطن پرستی کے جذبے اور اس کے نتیجے میں قومی تشکیل پر جو دلائل دیے ہیں، ان میں سے ایک اہم دلیل یہ ہے کہ تعلیمی اداروں میں برطانیہ کی تاریخ کو ابتداء سے لے کر موجودہ زمانے تک اس طرح بیان کیا جائے کہ جن سے اس کی بڑائی اور کارناموں کا اظہار ہو۔ آثار قدیمہ کو دریافت کر کے پرانی عمارتوں اور بستیوں کو دوبارہ سے ان کی اصلی حالت میں واپس لایا جائے۔
تاریخی اشیاء کو محفوظ کیا جائے تاکہ ان کی مدد سے ماضی کے کلچر کو سامنے لایا جائے، جس کی وجہ سے تہذیبی ترقی کا ارتقاء واضح ہو سکے گا۔ تاریخ میں اس اہمیت کو بھی بیان کیا جائے کہ انگلش معاشرے میں ابتداء ہی سے فرض شناسی، ایمانداری اور انسانی ہمدردی کے جذبات تھے۔ وہ ہر صورت میں اپنی عزت اور وقار کو ترجیح دیتے تھے۔انیسویں صدی میں یورپ میں نسل پرستی کے جذبات نے زور پکڑا۔
برطانوی ماہر فطرت اور ڈاکٹر سر فرانسس گیلٹن نے یوجینکس کا نظریہ پیش کیا جس میں کہا گیا کہ شادی سے پہلے لڑکے اور لڑکی کے چار پانچ نسلوں کی بیماریوں کو دیکھا جائے۔ اگر کوئی بیماری ایک نسل سے دوسری نسل میں منتقل ہوتی ہے تو اس صورت میں شادی سے پرہیز کیا جائے۔ یوجینکس کے نظریے کو جرمنی، امریکہ اور اسکینڈے نیوین کے ممالک نے بھی اختیار کیا۔ بچے کی پیدائش کے بعد اس کا معائنہ کیا جاتا تھا کہ وہ کسی بیماری میں مبتلا تو نہیں اگر وہ صحت مند نہیں ہوتا تھا تو اس صورت میں ڈاکٹر خاموشی سے اسے مار دیتے تھے۔ ماں باپ کو یہ اطلاع دیتے تھے کہ ان کا بچہ بیماری کی وجہ سے فوت ہو گیا ہے۔ یوجینکس کے تحت منصوبہ یہ تھا کہ ایک صحت مند نسل کو تیار کیا جائے لیکن جب اس کے بارے میں لوگوں کو خبر ہوئی تو اس پر سخت احتجاج کیا گیا جس کے نتیجے میں یہ منصوبہ ختم ہو گیا۔برطانیہ میں وطن پرستی کا جذبہ اس وقت شدت کے ساتھ اُبھرا جب اس نے ایشیا اور افریقہ میں اپنی کالونیاں بنائیں۔ کالونیوں کے قیام میں عام برطانوی فوجی شامل تھے لیکن جب وہ فاتح ہو کر کسی ایشیا اور افریقہ کے ملک میں جاتے تھے تو ان کا سماجی درجہ بڑھ جاتا تھا۔ وہ خود کو فاتح سمجھ کر مقبوضہ علاقوں کے لوگوں کو کمتر اور غیر مہذب شمار کرتے تھے۔
برطانوی عوام نے بھی ان کالونیوں میں عوام پر جو مظالم ہوتے تھے ان کی حمایت کی۔1857 کی جنگ آزادی میں جب ایسٹ انڈیا کمپنی فاتح ہوئی تو اس نے ہزاروں لوگوں کو بغیر مقدمہ چلائے پھانسیاں دیں۔ توپ سے باندھ کر انہیں اڑایا گیا اور فضا میں ان کے جسم کے ٹکڑے بکھر گئے۔ مغل شہزادوں کے قتل پر فخر کا اظہار کیا گیا۔ پہلی عالمی جنگ کے بعد جب جنرل ایڈورڈ ہیری ڈائر نے امرتسر میں جلیاں والے باغ کے ایک جلسے میں لوگوں کا قتل عام کیا تو برطانیہ کی پبلک نے اس کے لیے چندہ جمع کر کے اس کی خدمات کا اعتراف کیا۔
لہٰذا ہم دیکھتے ہیں کہ وطن پرستی کو حکمران طبقے نے اپنے فوجی اور سیاسی اقتدار کے لیے استعمال کیا۔ ذرائع ابلاغ کے ذریعے لوگوں کے ذہن کو بدلا۔ ایک جانب اس نے حکمرانوں کو تحفظ دیا اور عام لوگوں کو جھوٹی شان و شوکت کے خواب دکھا کر ان کی مفلسی اور غربت کو ختم کیے بغیر ان کی حمایت حاصل کی۔ لہٰذا وطن پرستی کا جذبہ ہمیشہ اشرافیہ کے مفاد میں ہوتا ہے۔اس تناظر میں جب ہم پاکستان کی تاریخ کا جائزہ لیتے ہیں تو یہاں بھی حکمران طبقے میڈیا کے ذریعے ملی نغموں، گیتوں اور جوشیلی تقریروں کے ذریعے وطن پرستی کی تشہیر کرتے ہیں۔ عوام سے قربانی چاہتے ہیں مگر ان کی غربت اور مفلسی کو ختم کرنے میں کسی کو دلچسپی نہیں ہے۔
نوٹ: ڈی ڈبلیو اُردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔