مقبوضہ کشمیرمیں 5اگست 2019سے اب تک ایک ہزار سے زائدکشمیریوں کوشہید کیاگیا: رپورٹ

منگل 5 اگست 2025 16:12

سرینگر (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 05 اگست2025ء) 05اگست 2019کو بی جے پی کی ہندوتوا حکومت کی طرف سے مقبوضہ جموں وکشمیر کی خصوصی حیثیت کی غیر قانونی منسوخی کے بعد سے مقبوضہ علاقے میں کشمیریوں کے ماورائے عدالت قتل ، بلاجواز گرفتاریوں،جبری گمشدگیوں،ظلم و تشدد اورجائیدادوں کی ضبطی اور سرکاری ملازمتیں چھیننے کے واقعات سمیت وحشیانہ مظالم میں تشویشناک حد تک اضافہ ریکارڈ کیاگیا ہے ۔

کشمیر میڈیا سروس کے ریسرچ سیکشن کی طرف سے آج بھارتی حکومت کے غیر قانونی اور غیر آئینی اقدامات کو 6 سال مکمل ہونے کے موقع پر جاری کی گئی ایک رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ بھارتی فوجیوں نے اس عرصے کے دوران 21خواتین اور44 لڑکوں سمیت ایک ہزار30کشمیریوں کو شہید کیا ہے۔ سینئر حریت رہنما محمد اشرف صحرائی ، الطاف احمد شاہ اور غلام محمد بٹ ان 274کشمیریوں میں شامل ہیں جنہیں جعلی مقابلوں میں یابھارتی پولیس کی حراست میں شہید کیاگیا۔

(جاری ہے)

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مقبوضہ علاقے میں پرامن مظاہرین پر بھارتی فوجیوں، پیراملٹری فورسز اور پولیس اہلکاروں کی طرف سے گولیوں، پیلٹ گنوں اور آنسو گیس سمیت طاقت کے وحشیانہ استعمال کے نتیجے میں کم سے کم 2551افراد شدید زخمی ہوئے۔ اس دوران ستمبر2021کو بزرگ حریت رہنماء سید علی گیلانی گھر میں غیر قانونی نظربندی کے دوران جاں بحق ہو ئے۔

انہوں بھارتی قابض انتظامیہ نے تقریبا ایک دہائی تک گھر میں نظربند رکھا۔ رپورٹ کے مطابق5 اگست 2019 کے بعد سے بھارتی فوجیوں کے ہاتھوں کشمیریوں کے قتل عام اور ان پرڈھائے جانیوالے مظالم کے واقعات کی تعداد 2011سے2015اور 2019سے زیادہ ہے۔ ان میں سے بیشتر کشمیریوں کوتلاشی اور محاصرے کی کارروائی کے دوران جعلی مقابلوں میں شہید کیاگیا۔بہت سے نوجوانوں کو ان کے گھروں سے گرفتار کیا گیا اور بعد ازاں مجاہدین یا آزادی پسند تنظیموں کاکارکن قراردیکر شہید کر دیا گیا۔

رپورٹ میں کہاگیا ہے کہ نوجوانوں کی اکثریت کوپبلک سیفٹی ایکٹ اور غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام کے کالے قوانین کے تحت گرفتار کیاگیا۔ 05اگست 2019کے بعد ہونے والی شہادتوں کے نتیجے میں76خواتین بیوہ اور208بچے یتیم ہوئے۔ فوجیوں نے اس عرصے کے دوران پورے مقبوضہ علاقے میں محاصرے اور تلاشی کی 22ہزار385کارروائیوں اور گھروں پر چھاپوں کے دوران 1165سے زائد رہائشی مکانات اور دیگر عمارتوں کو نقصان پہنچایا اور 137خواتین کی بے حرمتی کی جبکہ درجنوںخواتین سمیت 29ہزار565افراد کو گرفتار کیا۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بھارت کی جانب سے مقبوضہ علاقے کی خصوصی حیثیت کو منسوخ کے بعد سے کشمیریوں کو خاص طور پر معاشی، سیاسی اور سماجی طور پرشدید مسائل کا سامنا ہے ۔مودی حکومت کے 5اگست کے غیر قانونی اقدام کا مقصد مقبوضہ جموں وکشمیر کی مسلم اکثریتی شناخت کو اقلیت میں تبدیل کرنااوراقوام متحدہ کی زیر نگرانی رائے شماری کے کشمیریوں کے مطالبے کو زک پہنچانا تھا۔

بھارت پورے مقبوضہ جموں و کشمیر کو ایک کھلی جیل میں تبدیل کر دیا گیا ہے،جہاں ہزاروں حریت رہنمائوں اور کارکنوں، مذہبی و سیاسی قائدین، تاجروں ،سول سوسائٹی کے ارکان اور نوجوانوں کو 5اگست 2019سے قبل یا اس کے بعد گرفتار کرلیا گیاتھا اور وہ اب بھی بھارت اورمقبوضہ جموں وکشمیر کی مختلف جیلوں میں قید ہیں۔ گرفتارکئے گئے رہنمائوں میں کل جماعتی حریت کانفرنس کے چیئرمین مسرت عالم بٹ، شبیر احمد شاہ، محمد یاسین ملک، نعیم احمد خان، آسیہ اندرابی، فہمیدہ صوفی، ناہیدہ نسرین، ایاز محمد اکبر، پیر سیف اللہ، راجہ معراج الدین کلوال، شاہد الاسلام، فاروق احمد ڈار، سید شاہد یوسف، سید شکیل یوسف، مظفر احمد ڈار، غلام محمد بٹ، مشتاق الاسلام، امیر حمزہ، مولوی بشیر عرفانی، بلال صدیقی،ایڈووکیٹ میاں عبدالقیوم،ڈاکٹر حمید فیاض، ایڈووکیٹ زاہد علی، ظفر اکبر بٹ، محمد رفیق گنائی، حیات احمد بٹ، عمر عادل ڈار، ڈاکٹر محمد قاسم فکتو، غلام قادر بٹ، محمد شفیع شریعتی، فردوس احمد شاہ، فیاض حسین جعفری، محمد یاسین بٹ، ظہور احمد بٹ، عبدالاحدپرہ، شوکت حکیم، معراج الدین نندا، وحید احمد گوجری، محمود ٹوپی والا، فیروز عادل زرگر، دائود زرگر، نور محمد فیاض، اسد اللہ پرے،انسانی حقوق کے کارکن خرم پرویزاورعرفان مجید، بھارتی پارلیمنٹ کے رکن انجینئر رشید اور متعدد صحافی شامل ہیں۔

رپورٹ میں افسوس کا اظہار کیا گیا کہ مقبوضہ کشمیرمیں آزادی صحافت کو مسلسل خطرہ لاحق ہے جہاں صحافیوں کو گرفتار اور ہراساں کیا جاتا ہے۔ رپورٹ میں کہاگیاکہ 2020میں مقبوضہ جموں وکشمیرمیں بی جے پی حکومت کی طرف سے متعارف کرائی گئی نئی میڈیا پالیسی نے علاقے میں معلومات تک رسائی کو مزید محدود کر دیا ہے۔ بھارت مقبوضہ کشمیرمیں اپنے مذموم مقاصد کے حصول کے لیے مسلسل ظالمانہ ہتھکنڈے استعمال کر رہا ہے۔

بی جے پی حکومت نے کشمیریوں کے حقوق اور قدرتی وسائل چھین لئے ہیںاور اب وہ مقبوضہ علاقے کی مسلم اکثریتی حیثیت کو تبدیل کرنے میں مصروف ہے۔ اس مقصد کے لیے مقبوضہ علاقے میں ہزاروں بھارتی شہریوںاور دیگر غیر کشمیریوں کو ڈومیسائل سرٹیفکیٹ جاری کئے گئے ہیں۔ آر ایس ایس سے متاثرہ بی جے پی کی قیادت مقبوضہ جموں وکشمیرسے مسلمانوں کا نام ونشان مٹانے کے درپے ہے۔

تاریخی روایات کو مسخ کیا جا رہا ہے اورنصاب تعلیم سے کشمیری، اردو جیسی مقامی زبانوں کی جگہ ہندی اور سنسکرت کوشامل کیاجارہا ہے ۔ آزادی پسند رہنمائوں اور کارکنوں کی کالے قوانین کے تحت جائیدادیں ضبط کی جا رہی ہیں تاکہ انہیں اپنے جائز مطالبے سے دستبردار ہونے پر مجبور کیا جا سکے۔مودی حکومت نے اسمبلی میں ہندوئوں کو زیادہ نشستیں دینے کے لیے مقبوضہ جموں وکشمیرمیں نئی حلقہ بندیاں کروائیں ۔

اگست 2019 میں مقبوضہ جموں وکشمیرکی خصوصی حیثیت کی غیر قانونی تنسیخ کے بعد سے مقبوضہ جموں و کشمیر میں مسلمانوںکومعاشی پسماندگی کی طرف دھکیلنے کیلئے بی جے پی حکومت نے سینکڑوں سرکاری ملازمین کو جھوٹے الزامات پر برطرف کر دیا ہے۔ اس کے علاوہ بھارتی حکومت نے غیر ریاستی باشندوں کے لیے روزگار کے مواقع میں نمایاں اضافہ کیا ہے اور مقامی کشمیریوں کے حقوق پر ڈاکہ ڈالاہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بدترین بھارتی مظالم کشمیریوں کے جذبہ آزادی کو دبانے میں ناکام رہے ہیں اور وہ استصواب رائے کے مطالبے سمیت اپنے حقوق کے لیے جدوجہد جاری رکھنے کے لیے پرعزم ہیں۔رپورٹ میں کہاگیاکہ بھارتی حکومت کو اس حقیقت کا ادراک کرنا چاہیے کہ وہ کشمیریوں کو طاقت کے بل پرخاموش نہیں کراسکتی۔ بی جے پی حکومت کو مقبوضہ جموں وکشمیرمیں انسانیت کے خلاف جرائم پر جواب دہ ٹھہرایاجانا چاہیے۔ رپورٹ میں عالمی برادری پرزوردیاگیاہے کہ وہ مقبوضہ علاقے میں بھارت کے ظالمانہ اقدامات کا نوٹس لے اور کشمیریوں کی امنگوں اور اقوام متحدہ کی متعلقہ قراردادوں کے مطابق تنازعہ کشمیر کے حل کیلئے بھارت پر دبائو بڑھائے۔