اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 05 اگست 2025ء) جموں و کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت کے حوالے سے بھارتی آئین کی دفعہ 370 کی منسوخی اور جموں و کشمیر کو دو مرکزی زیرِ انتظام علاقوں (یونین ٹیریٹریز) میں تقسیم کیے جانے کے چھ سال بعد، یہ خطہ ایک تبدیلی کے دوراہے پر کھڑا ہے۔ اگرچہ عسکریت پسندی اور علیحدگی پسند سرگرمیوں میں نمایاں کمی آئی ہے اور ترقیاتی منصوبے تیزی سے آگے بڑھ رہے ہیں، جن میں وادی کشمیر کو بھارت کے باقی حصوں سے ریلوے کے ذریعے جوڑنے کا منصوبہ بھی شامل ہے، تاہم ریاستی حیثیت کی بحالی کا مستقل مطالبہ اب بھی سیاسی اختلافات کو ہوا دے رہا ہے۔
دریں اثنا، جموں و کشمیر میں افواہیں گردش کر رہی ہیں کہ مرکزی حکومت جزوی ریاستی حیثیت بحال کر سکتی ہے یا جموں کو کشمیر سے علیحدہ کر کے اسے ریاست کا درجہ دے سکتی ہے۔
(جاری ہے)
جموں و کشمیر کے سول سوسائٹی کے کارکنوں کا کہنا ہے عوام کی یہ شدید خواہش ہے کہ جموں و کشمیر کو ریاست کا اس کا سابق درجہ جلد از جلد بحال کیا جائے۔
جموں و کشمیر ہائی کورٹ میں وکیل اور سماجی کارکن خاور حسین نے اس حوالے سے ڈی ڈبلیو اردو سے سری نگر سے فون پر بتایا کہ اب یہاں ایک منتخب حکومت ہے اور لوگ چاہتے ہیں کہ جلد سے جلد ریاست کا درجہ واپس کیا جائے۔
خاور حسین کا کہنا تھا، ’’گورنر راج کے نفاذ کے بعد کشمیریوں کے جمہوری حقوق سلب کر لیے گئے اور بے پناہ لوگوں کو گرفتار کیا گیا۔‘‘ انہوں نے تاہم تسلیم کیا کہ ’’پتھر بازی بند ہو گئی ہے۔‘‘
خاور حسین نے کہا کہ کشمیریوں کو آج امید تھی کہ اسٹیٹ ہڈ کی واپسی کا اعلان کیا جائے گا، لیکن ایسا نہیں ہوا۔ لوگ چاہتے ہیں کہ کشمیر کی حیثیت جلد از بحال کی جائے۔
انہوں نے یاد دلایا کہ وزیر اعظم نریندر مودی اور وزیر داخلہ امیت شاہ نے بھارتی پارلیمنٹ میں وعدہ کیا تھا اور سپریم کورٹ میں حلف نامہ بھی دیا ہے کہ ہم جلد از جلد اسٹیٹ ہڈ واپس کریں گے۔مکمل ریاست کی بحالی کی امید؟
تاہم سوال یہ ہے کہ کیا بھارت کی ہندو قوم پرست حکومت جموں و کشمیر کو اس کا مکمل ریاستی درجہ بحال کرنے کے سلسلے میں مخلص ہے۔
کل پیر کو یہ افواہ گردش کر رہی تھی کہ مرکزی حکومت جموں کو کشمیر سے مزید الگ کر کے جموں کو ریاست کا درجہ دے سکتی ہے۔خاور حسین کہتے ہیں کہ ہم کشمیر میں مکمل ریاستی حیثیت کی جلد از جلد واپسی چاہتے ہیں۔’’ہمیں امید ہے کہ حکومت پارلیمنٹ کے مانسون اجلاس میں کشمیر کےاسٹیٹ ہڈ کا اعلان کرے گی۔ کیونکہ اس نے سپریم کورٹ میں حلف نامہ داخل کرکے 'حتی الامکان جلد از جلد‘ ایسا کرنے کا وعدہ کیا ہے۔
‘‘ لیکن سوال یہ ہے کہ حتی الامکان جلد از جلد کا مطلب کیا ہے۔جموں و کشمیر کے سابق وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے بھی پیر کے روز کہا کہ وہ پارلیمنٹ کے جاری اجلاس کے دوران یونین ٹیریٹری کے لیے ’’کچھ مثبت‘‘ ہونے کے بارے میں پُرامید ہیں، لیکن یہ کل نہیں ہو گا۔
علیحدہ جموں ریاست بنانے کی افواہ
کل سے یہ افواہیں گردش کر رہی ہیں کہ مرکز جموں و کشمیر کو جزوی ریاستی درجہ واپس دے سکتا ہے یا جموں کو کشمیر سے مزید الگ کر کے جموں کو ریاست کا درجہ دے سکتا ہے۔
ان افواہوں کے مطابق، کشمیر بدستور مرکز کے براہِ راست کنٹرول میں رہے گا اور اسے اسمبلی کے بغیر ایک مرکزی زیرِ انتظام علاقہ ہی رکھا جائے گا۔
عمر عبداللہ نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر لکھا، ’’میں نے جموں و کشمیر میں کل (5 اگست) کے حوالے سے ہر ممکن قیاس آرائی سن لی ہے، اس لیے میں کھل کر کہتا ہوں کہ کل کچھ نہیں ہونے والا، خوش قسمتی سے کچھ برا نہیں ہو گا، لیکن بدقسمتی سے کچھ اچھا بھی نہیں ہو گا۔
میں اب بھی پارلیمنٹ کے اس مانسون اجلاس میں جموں و کشمیر کے لیے کچھ مثبت ہونے کے حوالے سے پُرامید ہوں، لیکن وہ کل نہیں ہو گا۔‘‘تاہم، عبداللہ نے واضح کیا کہ ان کی دہلی میں کسی سے کوئی ملاقات یا بات چیت نہیں ہوئی ہے اور ان کا بیان صرف ’’دل کی بات‘‘ پر مبنی ہے۔
دریں اثنا آج منگل کو سپریم کورٹ نے کہا کہ وہ جمعہ، 8 اگست کو ایک درخواست پر سماعت کرے گی جس میں مرکز کو جموں و کشمیر کی یونین ٹیریٹری کی ریاستی حیثیت بحال کرنے کی ہدایت دینے کی استدعا کی گئی ہے۔
’یوم استحصال کشمیر‘
بھارت کی مودی حکومت کی طرف سے جموں و کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت کو ختم کرنے کے خلاف آج پاکستان میں ’یوم استحصال کشمیر‘ منایا جا رہا ہے۔
پاکستانی میڈیا رپورٹوں کے مطابق اس موقع پر صدر پاکستان آصف زرداری، وزیراعظم شہباز شریف اور پاکستان کی مسلح افواج نے کشمیری عوام کے ساتھ غیر متزلزل یکجہتی کا اعادہ کیا ہے۔
صدر آصف علی زرداری نے اپنے پیغام میں کہا ہے کہ بھارت کے ’’غیرقانونی اور یکطرفہ اقدامات کو چھ سال مکمل ہو گئے ہیں، بھارتی اقدام کا مقصد کشمیر کی متنازع حیثیت اور حق خودارادیت کو کمزور کرنا تھا، چھ سال میں بھارت نے آبادیاتی ساخت اور سیاسی نقشہ تبدیل کرنے کے اقدامات کیے۔‘‘
انہوں نے مزید کہا کہ مسئلہ کشمیر کا حل سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق ناگزیر ہے، پاکستان کشمیری عوام کے حقوق حصول تک سیاسی، سفارتی اور اخلاقی حمایت جاری رکھے گا۔
وزیراعظم شہباز شریف نے اپنے پیغام میں کہا کہ حکومت پاکستان کشمیری عوام سے غیرمتزلزل یکجہتی کااعادہ کرتی ہے۔
وزیراعظم نے کہا کہ ’’یوم استحصال بھارتی مظالم اور امن کے انکار کی سنجیدہ یاد دہانی ہے، کشمیریوں کے انسانی حقوق اورشناخت سے انکار علاقائی عدم استحکام کی وجہ ہے۔‘‘
ادارت: صلاح الدین زین