دنیا پلاسٹک آلودگی سے نجات چاہتی ہے، یونیپ چیف انگر اینڈرسن

یو این بدھ 6 اگست 2025 06:30

دنیا پلاسٹک آلودگی سے نجات چاہتی ہے، یونیپ چیف انگر اینڈرسن

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 06 اگست 2025ء) انسانی صحت، سمندری حیات اور معیشت پر پلاسٹک کی آلودگی کے اثرات سے نمٹنے کے لیے جنیوا میں ایک عالمی معاہدے کو حتمی صورت دینے کی کوششیں جاری ہیں جس کی پابندی رکن ممالک پر قانوناً لازم ہو گی۔

اس موقع پر اقوام متحدہ کے ماحولیاتی پروگرام (یونیپ) کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر انگر اینڈرسن نے کہا ہے کہ درحقیقت اس مسئلے پر ایک روایتی معاہدے کی ضرورت ہے کیونکہ یہ بحران بے قابو ہو چکا ہے اور دنیا بھر کے لوگوں کے لیے یہ صورتحال ناقابل قبول ہے۔

Tweet URL

پلاسٹک فطری ماحول، سمندروں اور انسانی جسم میں بھی سرایت کر چکا ہے اور یہ بات یقینی ہے کہ کوئی بھی پلاسٹک کی آلودگی نہیں چاہتا۔

(جاری ہے)

ان کا کہنا ہے کہ اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے پلاسٹک کی ری سائیکلنگ کافی نہیں بلکہ اس کی گردشی معیشت کی جانب منطم منتقلی کی ضرورت ہے جس میں پلاسٹک کی تیاری سے لے کر استعمال اور تلفی تک ہر مرحلے میں ماحول کو تحفظ دیا جا سکے۔

یونیپ کے مطابق، معاہدے کے بغیر 2060 تک پلاسٹک کی پیداوار اور اس کے کچرے میں تین گنا اضافہ ہو جائے گا جس سے انسانی صحت سمیت بہت سے نقصانات ہوں گے۔

معاہدے کے خلاف مزاحمت

سوئزرلینڈ کے شہر جنیوا میں اس معاہدے کے لیے جاری اجلاس میں میزبان ملک کی اعلیٰ سطحی ماحولیاتی عہدیدار کیٹرین شنیبرگر نے قانونی طور پر پابند معاہدے کی حمایت میں بات کرتے ہوئے کہا کہ پلاسٹک کا کچرا جھیلوں کو بری طرح آلودہ کر رہا ہے، جنگلی حیات کو نقصان پہنچا رہا ہے اور صحت کے لیے خطرہ بن چکا ہے۔ یہ محض ماحولیاتی نہیں بلکہ ایک عالمگیر مسئلہ ہے جو ہنگامی بنیاد پر اور اجتماعی اقدامات کا تقاضا کرتا ہے۔

صحافیوں سے بات کرتے ہوئے ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ پلاسٹک پیدا کرنے والے ممالک نے اس کی تیاری پر مقدار کی حد مقرر کرنے سے متعلق کوئی بات نہیں کی۔

انہوں نے کہا کہ پلاسٹک کی پیداوار اور استعمال میں کمی لانے کے اقدامات پر اتفاق رائے سے مذاکرات کو آگے بڑھانے میں مدد مل سکتی ہے۔

اس معاہدے کے حامی اسے پیرس موسمیاتی معاہدے جیسا ہی اہم قرار دے رہے ہیں جن کا کہنا ہے کہ ایسے ممالک نے معاہدے کے خلاف دباؤ ڈالا ہے جن کا تیل اور قدرتی گیس پلاسٹک کی تیاری میں استعمال ہوتے ہیں۔

سمجھوتوں کی ضرورت

جنیوا میں اس معاہدے کے لیے بات چیت 10 روز جاری رہنا ہے۔ معاہدے کے حامیوں کو امید ہے کہ ایسا معاہدہ طے پا جائے گا جس کی بدولت پلاسٹک کے ڈیزائن سے تیاری اور اس کی تلفی تک ہر مرحلے میں ماحول کی حفاظت ممکن ہو گی۔

معاہدے پر بین الحکومتی مذاکراتی کمیٹی (آئی این سی) کے اجلاس کی رہنمائی کے لیے استعمال ہونے والے متن میں کہا گیا ہے کہ، یہ معاہدہ پلاسٹک کے ڈیزائن سے لے کر بڑے پیمانے پر اس کی پیداوار اور تلفی تک اس کی زندگی کے ہر مرحلے کا احاطہ کرتے ہوئے ماحول میں پلاسٹک کے اخراج کو روکے گا۔

22 صفحات پر مشتمل اس دستاویز میں 32 شقیں شامل ہیں جن پر سطر بہ سطر بات چیت ہو گی اور یہی معاہدے پر گفت و شنید کا نقطہ آغاز ہو گا۔

انگر اینڈرسن نے کہا ہے کہ اجلاس میں بعض ممالک کو پلاسٹک کی پیداوار میں کمی لانے، بعض کو اس کی مکینیکل ری سائیکلنگ اور بعض کو اس کے متبادل سے متعلق سمجھوتے کرنا ہوں گے۔ دیکھنا یہ ہے کہ بات چیت کیا رخ اختیار کرتی ہے تاہم اس وقت ورکنگ گروپ میں نیک نیتی سے کام ہو رہا ہے۔

انہوں نے پاکستان میں 2022 میں آنے والے سیلاب کے بعد ملک کے اپنے دورے کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ وہاں انہوں نے بڑے پیمانے پر پلاسٹک کا کچرا دیکھا جو کہ ایسی آفات سے ہونے والے بھاری نقصان کا ایک بڑا سبب ہوتا ہے۔ اسی لیے تمام ممالک کو ساتھ لے کر اور معیشت کا پہیہ چالو رکھتے ہوئے اس مسئلے کا موثر حل ڈھونڈنا ہو گا۔

پلاسٹک اور جسمانی معذوری

اجلاس کے موقع پر تحفظ ماحول کے لیے کام کرنے والوں کی بڑی تعداد بھی موجود ہے جنہوں نے ایک پرعزم معاہدے کی امید کا اظہار کیا ہے۔

انہی لوگوں میں امریکی ریاست کیلیفورنیا سے تعلق رکھنے والی شیلن سالنگ بھی شامل ہیں جو یوتھ پلاسٹک ایکشن نیٹ ورک (وائی پی اے این) نامی ادارے کی عبوری سربراہ ہیں۔ یو این نیوز سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ پلاسٹک موسمیاتی تبدیلی سے لے کر صحت اور تولیدی ذرخیزی تک ہر شے کو متاثر کر رہا ہے اور اس آلودگی کے باعث بچوں میں پیدائشی نقص پیدا ہو رہے ہیں اور کئی طرح کی دیدہ و نادیدہ معذوری جنم لے رہی ہے۔

انگر اینڈرسن نے کہا کہ جنیوا میں طے پانے والا معاہدہ اس قدر مضبوط ہونا چاہیے جو تمام ممالک کی ضروریات کا احاطہ کرے جن کا پلاسٹک کے ڈیزائن، پیداوار، کچرے اور اس کی ری سائیکلنگ سے متعلق نقطہ نظر ایک دوسرے سے مختلف ہے اور اس معاہدے کو وقت کے تقاضوں سے بھی ہم آہنگ ہونا چاہیے۔