بلوچستان پاکستان کا دل، قیامِ پاکستان میں بلوچستان کے عوام کا کردار تاریخ میں سنہری حروف سے لکھا جائے گا،میر سرفراز بگٹی

ہفتہ 9 اگست 2025 20:40

کوئٹہ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 09 اگست2025ء) وزیراعلیٰ بلوچستان میر سرفراز بگٹی نے کہا ہے کہ بلوچستان پاکستان کا دل ہے اور اس کے بغیر ملک کا وجود ناممکن ہے، مگر بدقسمتی سے صوبے کی خوبصورت حقیقت کو بیان کرنے والے بہت کم لوگ ہیں اور ان کی آواز کو بھی اکثر نظرانداز کر دیا جاتا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ قیامِ پاکستان میں بلوچستان کے عوام کا کردار تاریخ میں سنہری حروف سے لکھا جائے گا کیونکہ صوبے کے قبائلی مشران نے قائداعظم محمد علی جناحؒ کی قیادت میں جرگہ بلا کر پاکستان کے ساتھ الحاق کا تاریخی فیصلہ کیا ۔

وہ ہفتہ کو کوئٹہ میں فتح معرکہ حق اور جشنِ آزادی کی مناسبت سے منعقدہ قومی استحکام پاکستان کانفرنس سے بطور مہمانِ خصوصی خطاب کر رہے تھے ۔ وزیراعلیٰ نے کہا کہ حالیہ برسوں میں بعض عناصر نے نام نہاد قوم پرستی کے نام پر بلوچستان میں پاکستان دشمن ایجنڈا پھیلانے کی کوشش کی جس کا مقصد بلوچ قوم کو ایک لاحاصل جنگ کی طرف دھکیلنا ہے ، یہ جنگ صرف خون خرابہ، دہشت اور معصوم جانوں کے ضیاع کا باعث بنتی ہے اس سے بلوچ قوم کو کوئی فائدہ نہیں ۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ جن قوتوں کے اشاروں اور ڈالرز پر پاکستان کو توڑنے کی بات کی جا رہی تھی ان کا انجام دنیا نے معرکہ حق میں دیکھ لیا ،جب افواجِ پاکستان نے اپنے سے سات گنا بڑے دشمن کے دانت کھٹے کر دئیے ۔ انہوں نے کہا کہ بلوچستان کے مسائل ضرور ہیں لیکن پسماندگی کسی کو ہتھیار اٹھانے اور ریاست کے خلاف بغاوت کا جواز نہیں دیتی۔ آئینِ پاکستان کا آرٹیکل 5 ہر شہری پر ریاست سے غیر مشروط وفاداری لازم قرار دیتا ہے ، جو لوگ معصوم شہریوں کا خون بہاتے ہیں وہ کسی صورت بلوچ کہلانے کے مستحق نہیں ان کی اصل شناخت دہشت گرد کی ہی ہے ۔

وزیراعلیٰ نے کہا کہ پاکستان کو مسلکی بنیادوں پر تقسیم کرنے کی ہر سازش ناکام ہوئی ہے ، بلوچستان میں تمام مکاتبِ فکر اور مذاہب کے لوگ مثالی مذہبی ہم آہنگی کے ساتھ رہتے ہیں اور اقلیتی برادری نے ہمیشہ ملکی سالمیت کے لیے کردار ادا کیا ہے ، سینٹر دھنیش کمار کی سینیٹ میں پاکستان کے حق میں جاندار آواز اسی اتحاد کی مثال ہے ۔ انہوں نے کہا کہ 14 اگست 1947 کے بعد ہماری سب سے بڑی پہچان پاکستانی ہوناہے ، اس کے بعد ہماری لسانی یا قبائلی شناخت آتی ہے ، دشمن ہمیں کبھی نسلی، کبھی لسانی بنیادوں پر تقسیم کرنے کی کوشش کرتا ہے اور بدقسمتی سے اب معصوم لوگوں کے قتل کو بلوچ روایات کے برعکس قبائلی اور حقوق کے حصول کا رنگ دینے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔

وزیراعلیٰ نے کہا کہ سوشل میڈیا پلیٹ فارم جھوٹ اور اشتعال انگیزی پھیلانے کے لیے استعمال ہو رہا ہے ، ہمارا معاشرہ اس کے لیے تیار نہیں تھا ، تحقیق کے بغیر مواد آگے بھیج دینا ایک خطرناک رجحان ہے جو معاشرتی گمراہی اور انتشار کو بڑھا رہا ہے ۔ وزیراعلیٰ نے کہا کہ حکومت نے نوجوانوں کو ریاست سے قریب کرنے کے لیے صوبے بھر میں جرگے اور کھلی کچہریاں منعقد کی ہیں تاکہ زمینی حقائق سے آگاہی دی جا سکے ۔

انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں امن لوٹ رہا ہے احتجاج کا حق سب کو ہے لیکن صوبے کی سڑکیں ہفتوں تک بند رہنے کا سلسلہ ختم کر دیا گیا ہے ، جو عناصر ہتھیار ڈال کر واپس آنا چاہیں ان کے لیے مذاکرات کے دروازے کھلے ہیں لیکن معصوم شہریوں کے خون کا جواب ریاست مظلوم کے ساتھ کھڑے ہو کر دے گی ۔ وزیراعلیٰ نے کہا کہ ریاست موسیٰ خیل کی اس لاچار عورت کے ساتھ کھڑی ہے جس کے شوہر اور بیٹے کو اس کے سامنے گولیوں سے چھلنی کردیا گیا اور اس کے پاس سر ڈھانپنے اور لاشوں پر ڈالنے کے لئے ایک ہی چادر تھی ، ایسے جرائم کو کم کرکے پیش کرنا ظلم کی انتہا ہے ۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان ایک ایٹمی قوت اور مضبوط فوج کے ساتھ تا قیامت قائم رہے گا ، چند سو مسلح افراد کا جتھا 25 کروڑ عوام پر اپنا نظریہ مسلط نہیں کر سکتا ۔ وزیراعلیٰ نے کانفرنس کے منتظمین، بالخصوص چیئرمین مرکزی رؤیتِ ہلال کمیٹی پاکستان مولانا سید عبدالخبیر آزاد کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ یہ پروگرام پاکستانیت اور اتحاد کا پیغام دیتا ہے ، حکومت بلوچستان ہر ایسے پروگرام کے انعقاد میں بھرپور تعاون کرے گی چاہے وہ کوئٹہ میں ہو یا صوبے کے دور دراز علاقوں میں، کیونکہ یہ وطن ہمارے بزرگوں کا خواب اور ہمارے ایمان کا حصہ ہے اور یہاں امن کا سورج ضرور طلوع ہوگا۔