سیاسی مصالحت سچے دل سے معافی مانگنے سے ممکن ہے، فیلڈ مارشل کا حوالہ دیکر سہیل وڑائچ کا دعویٰ

انہوں نے قرآن پاک کی آدم کی تخلیق اور شیطان کے کردار کے حوالے سے آیات کا متن اور ترجمہ سنایا کہ گویا معافی مانگنے والے فرشتے رہے اور معافی نہ مانگنے والا شیطان بن گیا؛ آرمی چیف سے ملاقات پر کالم

Sajid Ali ساجد علی ہفتہ 16 اگست 2025 13:54

سیاسی مصالحت سچے دل سے معافی مانگنے سے ممکن ہے، فیلڈ مارشل کا حوالہ ..
لاہور ( اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ 16 اگست 2025ء ) معروف صحافی، تجزیہ کار و کالم نگار سہیل وڑائچ نے فیلڈ مارشل عاصم منیر کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ ان کا کہنا ہے سیاسی مصالحت سچے دل سے معافی مانگنے سے ممکن ہے۔ روزنامہ جنگ کیلئے اپنے کالم میں انہوں نے بتایا کہ آرمی چیف فیلڈ مارشل عاسم منیر سے پہلی ملاقات بلجیئم کے شہر برسلز میں ہوئی، میں نے نہ پہلے کبھی کوئی خفیہ ملاقات کی اور نہ آج کی ، یہ ایک عاجز صحافی اور فیلڈ مارشل کی ملاقات تھی جس میں میرے کھردرے سوالات کے انہوں نے واضح اور شفاف جوابات دیئے، بات سیاست سے شروع ہوئی اوربالخصوص ان افواہوں پر کہ صدرِپاکستان اور وزیراعظم کو تبدیل کرنے پر کام ہو رہا ہے، جنرل عاصم منیر نے برسلز کے جلسے میں اور میرے ساتھ دو گھنٹے کی طویل نشست میں واضح طور پر کہا کہ ’تبدیلی کے بارے میں افواہیں سراسر جھوٹ ہیں‘، جب ان سے پوچھا گیا کہ یہ سب خبریں تو سول اور عسکری ایجنسیوں کی طرف سے آئی ہیں تو انہوں نے کہا کہ ’ایسا ممکن نہیں دراصل ا ن کے پیچھے حکومت اور مقتدرہ دونوں کے مخالف اور سیاسی انارکی پیدا کرنے والے عناصر ہیں‘۔

(جاری ہے)

انہوں نے سٹیج پر کھڑے ہو کر کہا کہ ’خدا نے مجھے ملک کا محافظ بنایا ہے مجھے اس کے علاوہ کسی عہدے کی خواہش نہیں، میں ایک سپاہی ہوں اور میری سب سے بڑی خواہش شہادت ہے‘، جنرل عاصم منیر بار بار سیاسی حکومت کے تدبر اور بالخصوص وزیراعظم شہباز شریف کے 18 گھنٹے پر خلوص کام کرنے کو سراہتے رہے، انہوں نے کہا کہ ’جنگ کے دوران وزیراعظم اور کابینہ نے جس عزم اور حوصلے کا مظاہرہ کیا اس کی تعریف کی جانی چاہیئے‘۔

سیاسی حوالے سے کئے گئے سوال پر انہوں نے کہاکہ ’سیاسی مصالحت سچے دل سے معافی مانگنے سے ممکن ہے‘، اس حوالے سے انہوں نے اسٹیج پر قرآن پاک کی آدم کی تخلیق او رشیطان کے کردار کے حوالے سے آیات کا متن اور ترجمہ سنایا جس سے واضح ہوتا تھا کہ شروع میں فرشتوں کو آدم سے مسئلہ تھا مگر خدا نے آدم کو تخلیق کیا تو سوائے ابلیس کے سب فرشتوں نے انسان کو خدا کا حکم اور کرشمہ سمجھ کر قبول کرلیاگویا معافی مانگنے والے فرشتے رہے اور معافی نہ مانگنے والا شیطان بن گیا۔

معروف صحافی کا کہنا ہے کہ معاشی بحران کے حل کے حوالے سے ان کے پاس پورا روڈ میپ تھا جس میں پانچ اور دس سال کے اندر پاکستان کو دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کی صف میں کھڑا کرنے کی منصوبہ بندی تھی،انہوں نے حساب کتاب لگا کر بتایا کہ ’اگلے سال سے ریکوڈک سے ہر سال دو ارب ڈالر کا خالص منافع ہوگا اور جو ہر سال بڑھتا جائے گا، پاکستان کے پاس نایاب زمینی خزانہ ہے اس خزانے سے پاکستان کا قرضہ بھی اتر جائے گا اور پاکستان کا شمار جلد ہی خوشحال ترین معاشروں میں ہونے لگے گا‘۔

بین الاقوامی حوالے سے انہوں نے کہا کہ ’پاکستان کو چین اور امریکہ کے درمیان توازن برقرار رکھنے کا طویل تجربہ ہے، ہم ایک دوست کیلئے دوسرے کو قربان نہیں کریں گے، پاکستان نے صدر ٹرمپ کیلئے نوبل انعام کی سفارش میں پہل کی اب باقی دنیا ہماری پیروی کر رہی ہے‘، فیلڈ مارشل ہر موقع پر بھارت اور مودی کے مذموم عزائم کو بے نقاب کرتے رہتے ہیں، برسلز میں بھی انہوں نے جہاں بھارت کو متنبہ کیا کہ وہ پراکسیز کے ذریعے پاکستان کے امن کو تباہ نہ کرے وہاں انہوں نے افغان حکومت کو بھی وارننگ دی کہ ’طالبان کو پاکستان میں دھکیلنے کی پالیسی بند کی جائے ورنہ ایک ایک پاکستانی کے خون کا بدلہ لینا ہم پر واجب ہے، ہم نے افغانوں پر سالہا سال تک مہربانیاں اور احسانات کیے اس کا بدلہ اتارنے کی بجائے ہمارے خلاف بھارت سے مل کر سازش کی جارہی ہے‘۔

سہیل وڑائچ کا کہنا ہے کہ جنرل عاصم منیر ذاتی طور پر تکبّر‎ سے کہیں دور ہیں حالانکہ عام طور پر حکمرانوں اور جرنیلوں کے اردگرد ’’ہٹو بچو‎‘‘ کا شور ہوتا ہے مگروہ گھنٹوں کھڑے ہو کر کم از کم دو تین سو لوگوں سے ملے ہر ایک سے مصافحہ کیا، ان کے ساتھ تصویر بنوائی اور ہر ملاقاتی کے ایک آدھ سوال کا جواب بھی دیا، ان کے چہرے پر کوفت نہیں بلکہ ہلکی سی مسکراہٹ تھی، ایک دو ساتھیوں نے مشورہ بھی دیا کہ اتنے لوگوں سے ملنا بدانتظامی پیدا کر دے گا۔

مگر انہوں نے عجز سے کہا کہ ’یہ لوگ بہت دور دور سے آئے ہیں، ملنے کے خواہش مند ہیں تو ا ن کا دل کیسے توڑا جائے؟‘، پھر جب تک آخری اوورسیز پاکستانی ان سے ہاتھ ملا کر رخصت نہیں ہوا وہ اپنا یہ فرض نبھاتے رہے، ایک سیاسی ورکر نے مجھے کہا کہ’اتنا حوصلہ تو سیاسی لیڈروں میں نہیں کہ ہر ایک سے ملنا گوارا کریں‘، فیلڈ مارشل نے اس عاجز کی معروضات کو کمال مہربانی سے سُنا، سب سے بڑی آوازتو یہی ہے کہ سویلین نظام چلتا رہے اس کو مصلحت اور مصالحت سے مزید نمائندہ بنایا جائے تاکہ واقعی مستحکم پاکستان کی بنیاد رکھی جاسکے۔