نیلم جہلم ہائیڈرو پاور منصوبہ مقاصد، پلاننگ، عمل درآمد کے اعتبار سے ناکام قرار دیئے جانے کا انکشاف

پروجیکٹ آبی حقوق کا تحفظ کرسکا نہ ہی اس سے ڈیزائن کے مطابق توانائی پیدا ہوئی، متعدد سرنگوں کی خرابیوں اور انہدام نے منصوبے پر کام کے معیار پر سنگین سوالات اٹھا دیئے؛ آڈیٹر جنرل آف پاکستان کی رپورٹ

Sajid Ali ساجد علی بدھ 3 ستمبر 2025 16:59

نیلم جہلم ہائیڈرو پاور منصوبہ مقاصد، پلاننگ، عمل درآمد کے اعتبار سے ..
اسلام آباد ( اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ 03 ستمبر 2025ء ) نیلم جہلم ہائیڈرو پاور منصوبہ مقاصد، پلاننگ اور عمل درآمد کے اعتبار سے ناکام قرار دیئے جانے کا انکشاف سامنے آگیا۔ ڈان اخبار کے مطابق آڈیٹر جنرل آف پاکستان (اے جی پی) نے 507 ارب روپے کے نیلم جہلم ہائیڈرو پاور منصوبے کو مقاصد، منصوبہ بندی اور عمل درآمد کے لحاظ سے ناکام قرار دیا ہے، اس حوالے سے کہا گیا ہے کہ منصوبہ پاکستان کے آبی حقوق کا تحفظ کرسکا اور نہ ہی اس سے ڈیزائن کے مطابق توانائی پیدا ہوئی، متعدد سرنگوں کی خرابیوں اور انہدام نے اس قومی اہمیت کے منصوبے پر کام کے معیار پر سنگین سوالات اٹھا دیئے۔

بتایا گیا ہے کہ آڈٹ رپورٹ 2022/23ء صدر اور پارلیمان کو پیش کی گئی، جس سے پتا چلا کہ منصوبہ سنگین تاخیر کا شکار رہا حالاں کہ کھدائی میں تیزی لانے کے لیے ٹنل بورنگ مشینیں (ٹی بی ایمز) فراہم کی گئی تھیں، تاہم بنیادی وجہ ڈیزائن میں بار بار تبدیلیاں تھیں، منصوبہ متوقع بجلی پیدا کرنے کے فوائد حاصل کر سکا نہ ہی دریائے نیلم پر آبی حقوق قائم کرسکا، منصوبہ کلین ڈیولپمنٹ میکانزم (سی ڈی ایم) کے تحت کاربن کریڈٹ بیچنے کے قابل ہوا نہ ہی ماحولیاتی تحفظ کے اقدامات مکمل ہوسکے۔

(جاری ہے)

آدیٹرجنرل نے کہا ہے کہ اگرچہ پہلا یونٹ 2018ء میں چلایا گیا لیکن ٹھیکیدار بقیہ کام، معاہدے کی شرائط پوری کرنے اور ہموار آپریشن کے لیے ضروری پرزہ جات فراہم کرنے میں ناکام رہے، چند ہی برسوں بعد پاور ہاؤس کی ٹیل ریس ٹنل (ٹی آر ٹی) کے انہدام نے بھی ڈیزائن اور کام کے معیار پر شکوک پیدا کیے، واپڈا کو منصوبے کو دسمبر 1989ء میں ایکنک سے منظور شدہ اصل پی سی ون کے مطابق 15 ارب 12 لاکھ روپے کی لاگت پر مکمل کرنا تھا، تاہم 3 بار نظرثانی کے بعد مئی 2018ء میں چوتھا ترمیم شدہ پی سی ون 506 ارب 80 کروڑ روپے کا منظور ہوا جب کہ جون 2023ء تک 423 ارب 44 کروڑ 60 لاکھ روپے خرچ ہو چکے تھے۔

معلوم ہوا ہے کہ منصوبہ تقریباً 8 سال تاخیر کا شکار ہوا اور لاگت 84 ارب 50 کروڑ روپے سے بڑھ کر 419 ارب 45 کروڑ روپے تک پہنچ گئی یعنی 334 ارب 95 کروڑ 20 لاکھ روپے اضافی خرچ ہوئے، منصوبے پر مؤثر انداز میں عمل درآمد نہیں کیا گیا کیوں کہ وسائل کا درست استعمال نہیں ہوا اور پی سی ون کے تحت طے شدہ وقت کو نظر انداز کیا گیا، ٹھیکیداروں کی تاخیر کی وجہ سے معاہدوں سے متعلق مسائل بھی حل نہیں ہوسکے، مؤثر ہونے کے اعتبار سے منصوبہ سستی بجلی فراہم کرسکا نہ ہی دریائے نیلم پر پانی کے حقوق محفوظ کرسکا۔

آڈٹ نے نتیجہ اخذ کیا کہ ٹیل ریس ٹنل کے انہدام نے پاور ہاؤس کو مارچ 2023 تک بند رکھا جس سے بجلی کی پیداوار میں بھاری نقصان اور لوڈشیڈنگ میں اضافہ ہوا، منصوبہ سالانہ 5 ہزار 150 گیگاواٹ آور بجلی پیدا کرنے کے فوائد حاصل کر سکا نہ ہی نیلم دریا پر پانی کے حقوق قائم کرسکا، خاص طور پر اس وقت جب پاکستان عالمی ثالثی عدالت میں کشن گنگا ڈیم کا مقدمہ ہار گیا تھا، چاروں یونٹس جولائی سے دسمبر 2018ء کے درمیان بجلی پیدا کرنے لگے، جس کی فنڈنگ وفاقی حکومت کے ترقیاتی قرضوں، واپڈا کی اپنی ایکویٹی، نیلم جہلم سرچارج اور ملکی و غیر ملکی قرضوں کے ذریعے کی گئی۔

بتایا جارہا ہے کہ آڈٹ انٹوسائی آڈٹنگ اسٹینڈرڈز، پرفارمنس آڈٹ مینوئل اور متعلقہ قوانین کے مطابق کیا گیا، اہم آڈٹ نکات میں سالانہ 5 ہزار 150 گیگاواٹ آور بجلی پیدا کرنے میں ناکامی، نیلم/کشن گنگا پر آبی حقوق قائم کرنے میں ناکامی، 9 سال کی تاخیر اور 338 ارب 94 کروڑ روپے کا اضافی خرچ، دیگر سنگین کوتاہیوں میں منصوبے کی ادائیگی کی مدت کا 5 سال سے بڑھ کر 12 سال ہونا، کلین ڈیولپمنٹ میکانزم کے تحت 5 کروڑ 13 لاکھ ڈالر کی آمدنی حاصل نہ ہونا، سالانہ پیداوار میں کمی اور ناقص منصوبہ بندی کے باعث 3 ارب 5 لاکھ روپے کا ماحولیاتی نقصان شامل ہیں۔

رپورٹ میں آڈیٹر جنرل کا کہنا ہے کہ نیپرا سے ریفرنس ٹیرف کی عدم منظوری کے باعث 70 ارب 44 کروڑ روپے کا نقصان ہوا، ٹیل ریس ٹنل کے انہدام سے 20 ارب 38 کروڑ روپے کا پیداواری نقصان ہوا مگر کوئی انکوائری نہیں کی گئی، ٹھیکیداروں کو ایک ارب 78 کروڑ روپے کی غیر ضروری اضافی ادائیگیاں کی گئیں، ٹیلی کام کے غیر تکمیل شدہ کاموں اور ایڈوانس ادائیگیوں کی وصولی نہیں ہو سکی، ملبے کو دوبارہ نہ ہٹانے سے ٹھیکیداروں کو غیر منصفانہ فائدہ ملا، 42 ارب روپے کا انشورنس کلیم وصول نہیں کیا گیا اور پرزہ جات کی فراہمی اور دیگر کام بھی مکمل نہیں ہوئے، یوں ناصرف نیلم جہلم منصوبہ تقریباً ہر مقصد میں ناکام رہا بلکہ بھاری مالی نقصانات، حل طلب معاہداتی تنازعات اور ساخت کے سنگین نقائص بھی پیدا ہوئے۔