�راچی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 04 ستمبر2025ء)وفاقی وزیر برائے ریلوے محمد حنیف عباسی نے پاکستان ریلوے کو جدید، مؤثر، شفاف اور کاروبار دوست ادارہ بنانے کے لیے اصلاحات، بحالی کے اقدامات اور ترقیاتی منصوبوں کا ایک جامع پیکیج پیش کیا ہے۔انہوں نے بتایا کہ 15 ارب روپے مالیت کی ریلوے اراضی پہلے ہی واپس لی جا چکی ہے جبکہ رواں سال مزید 50 ارب روپے مالیت کی جائیدادیں واپس لی جائیںگی۔
انہوں نے واضح کیا کہ پاکستان ریلوے کی جائیداد کو فروخت نہیں کیا جائے گا البتہ ریونیو شیئرنگ کی بنیاد پر شراکت داری کے منصوبے ضرور زیر غور ہیں تاکہ وسائل کا بہترین استعمال یقینی بنایا جا سکے۔انہوں نے جمعرات کو کراچی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے دورے کے موقع پر شہرِکراچی کی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ کراچی کے بغیر پاکستان کی معیشت تباہ ہو جاتی ہے اور کراچی ڈویژن کے بغیر ریلوے کا وجود ہی ختم ہو جاتا ہے۔
(جاری ہے)
انہوں نے یہ بھی بتایا کہ تھر کول کی ترسیل کا منصوبہ ملک بھر میں جاری ہے جبکہ 480 کلومیٹر پر محیط کراچی تا روہڑی طویل ریلوے لائن کا سنگ بنیاد جون 2026 تک رکھا جائے گا۔وزیر ریلوے نے جدت کے منصوبوں کی تفصیلات بیان کرتے ہوئے کہا کہ 155 ریلوے اسٹیشنز کو شمسی توانائی پر منتقل کیا جا رہا ہے جن میں کراچی کے 27 اسٹیشنز بھی شامل ہیں۔ ان میں سے 60 اسٹیشنز کو پہلے ہی سولر سسٹم پر منتقل کیا جا چکا ہے۔
40 اسٹیشنز پر وائی فائی کی تنصیب جاری ہے جبکہ تمام بڑے اسٹیشنز پر وائی فائی اور اے ٹی ایم کی سہولت فراہم کرنے کی تیاریاں مکمل کر لی گئی ہیں۔انہوں نے اعلان کیا کہ کراچی اسٹیشن پر جدید ترین سی آئی پی لاؤنج کا افتتاح 22 ستمبر کو کیا جائے گا جس کے بارے میں وفاقی وزیر نے دعویٰ کیا کہ یہ یورپ سے بھی بہتر ہوگا۔ اس کے علاوہ تمام پانچ ریلوے سیلون عوام کے لیے مناسب کرایوں پر دستیاب ہوں گے۔
حنیف عباسی نے بتایا کہ پاکستان ریلوے نے اپنے آپریشنز کی ڈیجیٹلائزیشن کا آغاز کر دیا ہے اور فضول خرچی و چوری کو روکنے کے لیے اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ انہوں نے انکشاف کیا کہ میٹر ریگولرائزیشن کے ذریعے 4 ارب روپے کی بچت کی گئی جبکہ ٹکٹنگ کی چوری سے پہلے سالانہ ایک ارب روپے کا نقصان ہوتا تھا۔انہوں نے واضح کیا کہ بغیر ٹکٹ سفر کرنے والے اور ان کی مدد کرنے والے افراد کو اب قید کی سزا دی جائے گی حتیٰ کہ وزراء یا چیئرمین ریلوے بھی بغیر ٹکٹ سفر نہیں کر سکتے۔
انہوں نے یہ بھی اعلان کیا کہ 11 مسافر ٹرینیں پہلے ہی آؤٹ سورس کی جا چکی ہیں اسی طرح اگلے 6 دنوں میں مزید 9 ٹرینیں آؤٹ سورس کی جائیں گی اور دسمبر تک مجموعی طور پر 38 مسافر ٹرینیں آؤٹ سورس کی جائیں گی۔مال بردار ٹرینیں بھی بڑھتی ہوئی طلب کو پورا کرنے کے لیے آؤٹ سورس کی جا رہی ہیں۔انہوں نے مزید بتایا کہ دو ٹرینیں پہلے ہی این ایل سی کے حوالے کی جا چکی ہیں جو اب مزید 10 ٹرینوں کا تقاضا کر رہا ہے جس سے مارکیٹ کا اعتماد ظاہر ہوتا ہے۔
اس کے علاوہ 8 ریلوے اسپتال اور 14 اسکول بھی آؤٹ سورس کیے جا رہے ہیں تاہم انہوں نے یقین دہانی کروائی کہ ریلوے ملازمین کو ان اسپتالوں میں مفت علاج کی سہولت بدستور جاری رہے گی۔وزیر ریلوے نے اعتراف کیا کہ سیلاب کی وجہ سے ٹرینیں تاخیر کا شکار ہو رہی ہیں اور فی الحال کرایوں میں کمی ممکن نہیں۔انہوں نے رولنگ اسٹاک کے بارے میںتبصرہ کرتے ہوئے انکشاف کیا کہ 8 سال قبل حاصل کی گئی بوگیاں اور انجن انتہائی ناقص معیار کے تھے جو 30 سال تک چلنے کے لیے تھے جو پہلے ہی ناکارہ ہو چکے ہیں۔
اس معاملے کی تحقیقات شروع کر دی گئی ہیں۔انہوں نے کہا کہ رولنگ اسٹاک کی کمی ایک بڑا چیلنج ہے جو توسیع میں رکاوٹ بن رہا ہے حالانکہ این ایل سی اور مال بردار شعبے کی جانب سے بہت زیادہ ڈیمانڈ موجود ہے۔انہوں نے مزید بتایا کہ سندھ حکومت کے ساتھ ایک معاہدہ کیا جا رہا ہے جس کے تحت سندھ سالڈ ویسٹ مینجمنٹ کراچی اسٹیشن اور تمام ٹرینوں کی صفائی کی ذمہ دار ہوگی۔
ٹرینوں کی دھلائی کے وقت کو 3 گھنٹے سے کم کر کے ڈیڑھ گھنٹہ کر دیا گیا ہے جبکہ فیومیگیشن کے ذریعے مسافروں کو کھٹمل، لال بیگ اور دیگر کیڑوں سے نجات دلائی جائے گی۔وزیر ریلوے نے متعدد تجاویز کے جواب میں یقین دلایا کہ تمام تجاویز کو نوٹ کر لیا گیا ہے اور ان پر سنجیدگی سے غور کیا جائے گا۔ انہوں نے ایسے افراد پر کڑی تنقید کی جو ٹیکس دہندگان کو چور کہتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ جو کاروباری افراد کو چور کہتا ہے وہ خود چور ہے جو لوگ پہلے ہی ٹیکس دے رہے ہیں انہیں نشانہ بنانا آسان ہے جبکہ اصل چیلنج ان لوگوں کو پکڑنا ہے جو ٹیکس نہیں دیتے۔انہوں نے مزید کہا کہ وزیراعظم نے وزارت ریلوے کو ایک چیلنج کے طور پر ان کے سپرد کیا اور صرف 6 ماہ میں وزیراعظم کے ویژن کے تحت اہم پیش رفت ہوئی ہے جس کے نتیجے میں 98 ارب روپے کا خطیر منافع حاصل ہوا۔
وزیر نے اعلان کیا کہ پاکستان ریلوے کو ایک جدید، شفاف اور کاروبار دوست ادارے میں تبدیل کیا جا رہا ہے۔انہوں نے اس بات کا اعادہ کیا کہ یہ وزارت واقعی ایک چیلنج ہے لیکن اصلاحات، ڈیجیٹلائزیشن، جائیدادوں کی واپسی اور پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کے ذریعے پاکستان ریلوے جلد ہی قومی اقتصادی ترقی کا اہم محرک بن جائے گا۔چیئرمین بزنس مین گروپ زبیر موتی والا نے اپنے خطاب میں زور دیا کہ پاکستان ریلوے منافع حاصل کرنے کو مسافر ٹریفک پر انحصار کے بجائے کارگو ٹریفک کی طرف منتقل کرنے کے لیے مؤثر حکمت عملی ترتیب دے۔
انہوں نے برطانوی ریلوے کی مثال دی جہاں 80 فیصد آمدنی کارگو ٹریفک جبکہ صرف20 فیصد آمدنی مسافر ٹریفک سے حاصل کی جاتی ہے۔انہوں نے مشاہدہ کیا کہ پاکستان ریلوے کے محدود کارگو آپریشنز کے باعث اپ کنٹری کا زیادہ تر سامان کراچی سے بذریعہ سڑک ترسیل کیا جا رہا ہے جس سے شہر میں ٹریفک کے مسائل مزید بڑھ گئے ہیں کیونکہ بندرگاہوں کو براہِ راست ہائی ویز سے جوڑنے والا کوئی مخصوص بائی پاس موجود نہیں۔
شہر کی سڑکوں پر بھاری گاڑیوں کی آمد و رفت نے کراچی میں حادثات کی شرح میں نمایاں اضافہ کردیا ہے۔ انہوں نے زور دیا کہ اگر بائی پاس بنایا جائے تو سڑک کے حادثات میں 70 فیصد تک کمی ممکن ہے۔انہوں نے وزارت ریلوے پر زور دیا کہ وہ کراچی چیمبر کے ساتھ ڈیجیٹلائزیشن اور مصنوعی ذہانت کے شعبوں میں قریبی تعاون کرے۔ انہوں نے مشترکہ طور پر ایک جامع پالیسی ریسرچ پیپر تیار کرنے کی تجویز پیش کی جو ڈیجیٹلائزیشن، مصنوعی ذہانت اور دیگر جدید اقدامات پر مبنی ہو جس کا مقصد پاکستان ریلوے کی خدمات کے معیار، کارکردگی اور پائیداری کو بہتر بنانا ہے تاکہ معیشت کو فائدہ پہنچے۔
کراچی چیمبر کے صدر محمد جاوید بلوانی نے وزیر ریلوے کا خیرمقدم کرتے ہوئے محمد حنیف عباسی کو ان کے وعدے کی پاسداری پر سراہا جن کی بدولت پاکستان ریلوے خسارے سے ایک منافع بخش ادارے میں تبدیل ہو چکا ہے۔انہوں نے وزیر ریلوے کے مؤثر ایکشن پلان کو سراہا جس سے خدمات کی فراہمی میں نمایاں بہتری آئی ہے۔اس حوالے سے انہوں نے لاہور ریلوے اسٹیشن کو بین الاقوامی معیار کے مطابق تبدیل کرنے کی مثال دی۔
انہوں نے درخواست کی کہ کراچی کینٹ اور سٹی اسٹیشنز پر بھی اسی طرح کی جدید سہولیات فراہم کی جائیں تاکہ عوام ریلوے کا زیادہ استعمال کریں اور منافع میں مزید اضافہ ہو۔انہوں نے نشاندہی کی کہ ایک وقت تھا جب اپ کنٹری سامان کی ترسیل ریلوے کے ذریعے ہوتی تھی لیکن مخصوص مفادات کے تحت اس نظام کو منظم طریقے سے ختم کر دیا گیا اور تمام کارگو کو سڑکوں پر منتقل کر دیا گیا۔
اس تبدیلی سے نہ صرف کاروباری لاگت میں اضافہ ہوا بلکہ انفراسٹرکچر کو بھی شدید نقصان پہنچایا۔انہوں نے کراچی کی دونوں بندرگاہوں کو فوری طور پر ریلوے نیٹ ورک سے دوبارہ منسلک کرنے پر زور دیا تاکہ لاجسٹک اخراجات کم ہوں، سڑکوں کو ہیوی گاڑیوںکے نقصان سے بچایا جا سکے اور مجموعی اقتصادی ترقی کو فروغ دیا جا سکے کیونکہ ریلوے کے ذریعے نقل و حمل سڑک کے مقابلے میں کہیں زیادہ مؤثر اور کم لاگت ہوتی ہے۔
انہوں نے کراچی سرکلر ریلوے کے دیرینہ مسئلے کو بھی اجاگر کرتے ہوئے کہا کہ بار بار یقین دہانیوں کے باوجود یہ منصوبہ تاحال عملی شکل اختیار نہیں کر سکا۔اگرچہ سندھ حکومت نے اب یہ عندیہ دیا ہے کہ کے سی آر کو سی پیک کا حصہ بنایا جا سکتا ہے تاہم انہوں نے مطالبہ کیا کہ اس بارے میں واضح مؤقف اور حتمی ٹائم لائن دی جائے۔ انہوں نے کہا کہ چاہے یہ منصوبہ سی پیک کا حصہ بنے یا نہ بنے کراچی کے عوام اور تاجر برادری یہ جاننا چاہتے ہیں کہ یہ اہم منصوبہ آخر کب مکمل ہو گا۔