بھارت ٹیرف کے طوفان کی زد میں، مودی حکومت کی پالیسی ناکامیاں بے نقاب

ہفتہ 6 ستمبر 2025 14:40

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 06 ستمبر2025ء) امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ٹرف پر ٹرف کے اچانک فیصلے نے بھارتی معیشت کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ بھارت کی£65 ارب مالیت کی برآمدات پر 50 فیصد ٹیرف نے معیشت کی بنیادیں ہلا دی ہیں۔ اس کے نتیجے میں ٹیکسٹائل، زیورات، سمندری خوراک اور چمڑے کی صنعتیں تباہی کے دہانے پر پہنچ گئی ہیں۔کشمیر میڈیا سروس کے مطابق ماہرین اسے 41£تا £45 ارب کا براہِ راست نقصان قرار دے رہے ہیں، جب کہ لاکھوں نوکریاں داو ¿ پر لگی ہیں۔

ناقدین کے مطابق یہ بحران محض بیرونی دباو ¿ نہیں بلکہ براہِ راست مودی حکومت کی ناکام معاشی اور سفارتی پالیسیوں کا نتیجہ ہے، جس میں روسی تیل پر جوا بھی شامل ہے۔ بھارت کو آج سب سے بڑے تجارتی بحران کا سامنا ہے۔

(جاری ہے)

دہائیوں کی برآمدات پر مبنی ترقی اب خطرے میں ہے۔ ٹرمپ نے ایک جھٹکے میں بھارت کی سب سے بڑی منڈی کو مہنگا ترین بنا دیا۔ ماہرین کے مطابق اس فیصلے سے بھارت کو41£تا 45£ ارب کا معاشی دھچکا لگے گا۔

سب سے زیادہ متاثرہ شعبے وہ ہیں جو سب سے زیادہ محنت طلب ہیں: ٹیکسٹائل، جوتے، زیورات، جواہرات، سمندری خوراک اور چمڑا۔ تروپور (تمل ناڈو) جیسے مراکز، جہاں پانچ لاکھ مزدور کپڑے تیار کرتے ہیں، فیکٹریوں کی بندش سے ویران ہو رہے ہیں۔ مزدور خوف زدہ ہیں کہ اگر نوکری گئی تو سب ختم ہو جائے گا ۔ ٹیرف کے بعد مو ¿ثر شرحیں کپڑوں پر 12 فیصد سے بڑھ کر 62 فیصد اور جھینگوں پر 60 فیصد تک پہنچ گئیں۔

یہ فرق بھارت کو عالمی منڈی میں مسابقت سے باہر کر رہا ہے، جبکہ ویتنام، سری لنکا اور بنگلہ دیش جیسے ممالک کم ٹیرف سے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ زیورات کی صنعت، جو امریکا کی منڈی سے $10 ارب (£7.4 ارب) کماتی ہے اور کل تجارت کا 30 فیصد بناتی ہے، بربادی کے دہانے پر ہے۔ برآمدات میں 75 فیصد کمی کا خدشہ ہے، جس سے سورت، جے پور اور ممبئی کے لاکھوں ہنر مند مزدور متاثر ہوں گے۔

سمندری خوراک، جس کی برآمدات £5.5 ارب ہیں، بھی شدید زد میں ہے۔ چونکہ دو تہائی جھینگے امریکا بھیجے جاتے ہیں، اس لیے یہ شعبہ تقریباً تباہ ہو جائے گا۔ ایکسپوٹرز تسلیم کرتے ہیںکہ امریکی منڈی میں بھارتی جھینگے ناقابلِ خرید ہو جائیں گے۔ ایکواڈور صرف 15 فیصد ٹیرف دے رہا ہے، وہ ہماری جگہ لے گا’ مجموعی طور پر یہ شعبے کروڑوں بھارتیوں کو روزگار فراہم کرتے ہیں۔

صرف جھینگے کی فارمنگ ہی 1.6 کروڑ مزدوروں کا سہارا ہے۔یہ بحران صرف ٹیرف کا نتیجہ نہیں بلکہ مودی حکومت کی ناقص حکمت عملی کی عکاسی کرتا ہے ۔ اس برباری میں مودی کے جن اقدامات حصہ ڈالا ان میں امریکا پر ضرورت سے زیادہ انحصار، دیگر منڈیوں میں تنوع نہ لانا۔یورپ، آسیان یا آر سی ای پی کے ساتھ کوئی معاہدہ نہ کرنا، لیبر انٹینسیو شعبوں میں مسابقتی صلاحیت پیدا نہ کرنا،عالمی تعلقات میں ادارہ جاتی سفارت کاری کے بجائے ٹرمپ سے ذاتی تعلقات پر انحصار۔

ٹرمپ نے کھل کر کہا کہ یہ ٹیرف بھارت کی سستے روسی تیل کی خریداری کی سزا ہے۔ مزید برآں، وہ اس پر بھی ناراض تھے کہ دہلی نے مئی میں بھارت-پاکستان تنازعے پر ان کے “امن قائم کرنے” کے دعوے کو مسترد کر دیا تھا۔جولائی میں لگائے گئے 25 فیصد ٹیرف کو صنعتوں نے برداشت کرنے کی کوشش کی، مگر اگست میں اس کا 50 فیصد ہونا برآمدکنندگان کے لیے تباہ کن ثابت ہوا۔

زیادہ تر کو صرف 10-15 فیصد ٹیرف کی توقع تھی۔ماہرین کہتے ہیں کہ یہ بحران بھارت کی جی ڈی پی میں 1 فیصد پوائنٹ تک کمی لا سکتا ہے۔ اگرچہ پہلی سہ ماہی میں نمو 7.8 فیصد رہی، لیکن اب اس جھٹکے سے برآمدات، اجرتیں اور کھپت بری طرح متاثر ہوں گی۔اگر یہ ٹیرف تین سے چھ ماہ بھی برقرار رہا تو بھارت اپنی برآمدات کا بڑا حصہ کھو دے گا۔ ماہرین خبردار کرتے ہیں کہ یہ صرف معیشت کا نہیں بلکہ سیاست کا بھی نقصان ہے۔

میک ان انڈیا کا نعرہ اب کھوکھلا ہوتا دکھ رہا ہے۔بھارت کے صنعتی ادارے اس وقت کریڈٹ ریلیف، برآمدی معاونت اور تجارتی معاہدے چاہتے ہیں۔ مودی حکومت جاپان، جنوبی کوریا اور چین کی طرف جھکنے اور 40 ممالک میں ٹیکسٹائل مہم شروع کرنے کی بات کر رہی ہے۔لیکن ناقدین اسے محض مودی حکومت کا جذباتی ردعمل قرار دیتے ہیں، نہ کہ کوئی ٹھوص اقدمات۔ فی الوقت صورتحال یہ ہے کہ بھارت اپنی ہی غلطیوں کے بوجھ تلے دب گیا ہے۔ پالیسی کی غفلت، سفارتی ناکامیاں اور دور اندیشی کی کمی نے اسے ایسے طوفان میں دھکیل دیا ہے جس میں مزدور اور صنعتیں سب سے زیادہ نقصان اٹھا رہی ہیں۔