فرانسیسی وزیراعظم پارلیمنٹ سے اعتماد کا ووٹ لینے میں ناکام

دولت کی منصفانہ تقسیم کا نظام قائم کیئے بغیردنیا میں سیاسی‘معاشی اور معاشرتی استحکام پیدا نہیں کیا جاسکتا.ماہرین

Mian Nadeem میاں محمد ندیم منگل 9 ستمبر 2025 16:20

فرانسیسی وزیراعظم پارلیمنٹ سے اعتماد کا ووٹ لینے میں ناکام
پیرس(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔09 ستمبر ۔2025 )فرانس کے وزیراعظم فرانسوا بائرو پارلیمنٹ سے اعتماد کا ووٹ لینے میں ناکام ہوگئے، جس کے بعد ان کی حکومت ختم ہوگئی ہے یہ فرانس کی جمہوری تاریخ میں تیسری بار ہے کہ حکومت عدم اعتماد کے باعث گر گئی ہے. غیر ملکی ذرائع ابلاغ کے مطابق وزیراعظم بائرو کو 364 ارکان کے مقابلے میں صرف 194 ووٹ ملے انہوں نے مالی بحران کے حل کے لیے اعتماد کا ووٹ لینے کی قرارداد خود پیش کی تھی مگر اکثریت حاصل کرنے میں ناکام رہے.

(جاری ہے)

رپورٹ کے مطابق جاری مالی بحران، عوامی تعطیلات ختم کرنے اور فلاحی اخراجات میں کمی کرنے جیسے اقدامات وزیراعظم کے خلاف عدم اعتماد کی بڑی وجوہات بنیں بائرو نے دسمبر 2024 میں وزارتِ عظمی کا عہدہ سنبھالا تھا حکومت گرنے کے بعد اپوزیشن رہنما میریں لی پین نے فوری نئے انتخابات کا مطالبہ کر دیا ہے. سیاسی بحران نے یورپی یونین کی دوسری بڑی معیشت کو غیر یقینی صورتحال میں دھکیل دیا ہے اور صدر ایمانوئل میکرون کے سیاسی مستقبل پر بھی سوالات اٹھ کھڑے ہوئے ہیں صدر میکرون کو اب نیا وزیراعظم نامزد کرنا ہوگا یا قبل از وقت انتخابات کرا کے بحران کا حل تلاش کرنا ہوگا تاکہ 2026 کا بجٹ منظور ہو سکے .

واضح رہے کہ گزشتہ دو سالوں میں پہلے ہی چار وزرائے اعظم تبدیل ہو چکے ہیں اور اب پانچویں وزیراعظم کے مستقبل پر بھی خدشات موجود ہیں ‘ماہرین کا کہنا ہے کہ کوویڈ19کی وبا کے بعد سے عالمی معیشت مسلسل زوال کا شکار ہے جبکہ یورپ کو روس یوکرین جنگ کی وجہ سے کم قیمت کے تیل اور گیس کی فراہمی کم ہونے سے معاشی دباﺅ کا سامنا ہے اور فلاحی ریاستیں کہلانے والے سیکنڈنیوین ممالک بھی فلاحی اخراجات میں مسلسل کمی کررہے ہیں.

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ یورپی ممالک تعلیم‘صحت‘بنیادی ضروریات‘رہائش سمیت دیگر فلاحی اخراجات میںمسلسل کمی لارہے ہیں بعض ماہرین کے مطابق یورپی راہنماﺅں کا غیرضروری طور پر عالمی تنازعات میں شامل ہونا معاشی دباﺅ کی وجہ بنا اور کرونا وائرس کے دوران لاک ڈاﺅن اور دیگر اقدامات کی وجہ سے معاشی ترقی کی رفتار خطرناک حد تک کم ہونے کے اثرات اب تک پوری دنیا کو متاثرکررہے ہیں.

ماہرین کے نزدیک حکومتیں معاشی اصلاحات کے لیے ٹھوس اقدامات کرنے میں ناکام نظرآتی ہیں برطانیہ‘فرانس سمیت یورپی ممالک میں حکومتوں کی پے درپے تبدیلیوں کے باوجود نتائج میں کوئی فرق نہیں آرہا جس کا مطب ہے کہ حکومتوں کی تبدیلیوں پر اربوں ڈالرکے اخراجات سے معاشیات پر دباﺅ بڑھ رہا ہے اور مسائل اپنی جگہ پر موجود ہیں انہوں نے کہاکہ حکومتوں کی تبدیلیوں کی بجائے معاشی اصلاحات پر توجہ دینے کی ضرورت ہے اور عام شہریوں کی بجائے ہنگامی حالات میں ارب پتیوں پر دوسری جنگ عظیم کی طرزپر اضافی ہنگامی ٹیکس عائدکیئے جائیں اور شیل کمپنیوں‘آف شور اکاﺅنٹس اور ٹیکس چوری کا خاتمہ کیا جائے.

انہوں نے کہاکہ عام شہریوں پر ٹیکسوں کا بوجھ بہت زیادہ بڑھ چکا ہے جبکہ مٹھی بھر ارب پتی ہرقانون اور ضابطے سے بالاترہیں بدقسمتی سے دنیا بھر میں امراءکی اس اقلیت کو حکومتوں‘عالمی اداروں کی تائیدوحمایت حاصل ہے اور حکمران اشرافیہ بھی اسی اقلیت سے تعلق رکھتی ہے لہذا اسے عام شہریوں کے مسائل کا ادراک نہیں. انہو ں نے کہا کہ یورپ ‘ایشیاء‘امریکا ‘افریقہ سے لے کرآسٹریلیا تک حکمران طبقہ اور سیاسی راہنماﺅں کی اکثریت دنیا کے امیروں کی اقلیت سے تعلق رکھتی ہے جو شہریوں کی توجہ اصل مسائل سے ہٹانے کے لیے حکومتوں کی تبدیلی ‘جنگوں‘دوسرے ملکوں کے ساتھ تنازعات جیسے امور میں الجھاکر رکھتی ہے ‘انہوں نے کہاکہ دوسری جنگ عظیم سے پہلے تک امریکا اور یورپ میں بڑی کمپنیوں اور امراءپر ٹیکس کی شرح 90فیصد تک تھی جوکہ آج مشکل سے چھ‘سات فیصد تک ہے یہ شرح عام شہریو ں کی جانب سے اداکیئے جانے والے براہ راست یا بلاواسط ٹیکسوں کے نصف سے بھی کم ہے .

یورپی معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ دنیا بھر میں امراءاور بڑی کارپویشنزجو ٹیکس اداکرتی ہے ایک دودہائیوں کے بعد وہ معاشی ابتری پیداکرکے اس سے کئی گنا زیادہ رقوم ”بیل آﺅٹ“کے نام پر واپس لے لیتی ہیںانہوں نے2008کے معاشی بحران کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ اس معاشی بحران کے دوران عام شہریوں کی ساری جمع پونجی لٹ گئی جبکہ تمام بڑی کارپوریشنزکو حکومتوں نے ”بیل آﺅٹ“کے نام پرکھربوں ڈالراداکیئے انہوں نے کہا کہ دولت کی منصفانہ تقسیم کا نظام قائم کیئے بغیردنیا میں سیاسی‘معاشی اور معاشرتی استحکام پیدا نہیں کیا جاسکتا.