اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 23 ستمبر 2025ء) صدر ایمانوئل ماکروں نے فرانس کی طرف سے فلسطینی ریاست کو باضابطہ طور پر تسلیم کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ وہ ’’اسرائیلی اور فلسطینی عوام کے درمیان امن‘‘ کی حمایت کرتے ہیں۔
ماکروں پیر کے روز نیویارک میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے افتتاحی اجلاس سے خطاب کر رہے تھے، ’’امن کا وقت آن پہنچا اور ہم اب اس سے چند لمحے ہی دور ہیں۔
‘‘انہوں نے مزید کہا کہ ’’حماس کے زیر حراست 48 یرغمالیوں کو آزاد کرنے کا وقت آ گیا ہے۔ جنگ، غزہ پر بمباری، قتل عام اور نقل مکانی روکنے کا وقت بھی آن پہنچا ہے۔‘‘
ماکروں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ فلسطینی ریاست میں فرانسیسی سفارت خانہ کھولنے کے لیے حماس کی جانب سے سات اکتوبر 2023 کو اسرائیل پر حملے کے دوران یرغمال بنائے گئے افراد کی رہائی پیشگی شرط ہو گی۔
(جاری ہے)
ان کا مزید کہنا تھا کہ بین الاقوامی برادری مشرق وسطیٰ میں منصفانہ اور دیرپا امن قائم کرنے میں ناکام رہی ہے۔ ماکروں نے کہا، ’’ہمیں دو ریاستی حل کے امکان کو محفوظ رکھنے کے لیے اپنی طاقت میں ہر وہ ممکنہ کوشش کرنی چاہیے، جس سے اسرائیل اور فلسطین امن اور سلامتی کے ساتھ شانہ بشانہ نظر آئیں۔‘‘
فرانس کی طرف سے فلسطین کی ریاست کو تسلیم کرنے کا فیصلہ برطانیہ، کینیڈا، آسٹریلیا اور پرتگال کی جانب سے اسی طرح کے اقدام کے ایک دن بعد سامنے آیا ہے۔
اسرائیل کو غزہ کی جنگ پر بڑھتے ہوئے بین الاقوامی دباؤ کا سامنا ہے۔اطلاعات کے مطابق فرانس کے اس اعلان کے بعد بیلجیئم، لکسمبرگ، مالٹا، انڈورا اور سان مارینو بھی فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے والے ہیں۔
پیر کے روز ہی سعودی عرب کے ولی عہد محمد بن سلمان کی جانب سے وزیر خارجہ فیصل بن فرحان آل سعود نے بھی اقوام متحدہ سے خطاب کیا۔
انہوں نے اس بات کا اعادہ کیا کہ خطے میں پائیدار امن کے حصول کا واحد راستہ دو ریاستی حل ہے۔یورپی کمیشن کی سربراہ ارزولا فان ڈیئر لائن نے کہا ہے کہ یورپی یونین غزہ کی تعمیر نو پر کام کرنے کے لیے ایک نیا مالیاتی منصوبہ ترتیب دے گی۔ انہوں نے اقوام متحدہ سے مخاطب ہو کر کہا، ’’ہم سب کو مزید کچھ کرنا چاہیے۔‘‘
فلسطینی میں جشن کا سماں
فلسطینی اتھارٹی فرانس کی طرف سے فلسطینی ریاست کو باضابطہ طور پر تسلیم کرنے پر جشن منا رہی ہے۔
رملہ میں فلسطینی اتھارٹی کی وزارت خارجہ نے ایک بیان میں کہا، ’’وزارت خارجہ اپنے دوست جمہوریہ فرانس کی طرف سے فلسطین کی ریاست کو تسلیم کرنے کا خیرمقدم کرتی ہے اور اسے ایک ایسا تاریخی اور دلیرانہ فیصلہ سمجھتی ہے، جو بین الاقوامی قانون اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق ہے۔ یہ فیصلہ امن کے حصول اور دو ریاستی حل پر عمل درآمد کے لیے جاری کوششوں کی حمایت کرتا ہے۔
‘‘فلسطینی اتھارٹی نے کینیڈا، برطانیہ، پرتگال اور ان دیگر مغربی ممالک کا بھی شکریہ ادا کیا، جنہوں نے حالیہ دنوں میں اسی طرح سے فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کا اعلان کیا ہے۔
فلسطینی صدر محمود عباس نے ویڈیو لنک کے ذریعے اپنے ایک پیغام میں کہا، ’’ہم ان لوگوں سے جنہوں نے ابھی تک ایسا نہیں کیا ہے، اس کی پیروی کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں۔
‘‘ٹرمپ انتظامیہ نے محمود عباس کو امریکی ویزا دینے سے انکار کر دیا، جس کے سبب وہ ان اہم تقریبات میں شرکت کرنے اور اقوام متحدہ کے اجلاس میں شرکت کرنے سے قاصر ہیں۔
فلسطینی اتھارٹی اسرائیل کے مقبوضہ مغربی کنارے میں رملہ میں قائم ہے۔ یہ اتھارٹی علاقے کے کچھ حصوں میں ایک خودمختار انتظامیہ کی ذمہ داری سنبھالتی ہے اور فلسطینی ریاست کے بین الاقوامی طور پر تسلیم کرنے کی سفارتی کوششوں میں بھی شامل رہی ہے۔
فلسطینی وزیر خارجہ وارسین آغابیکیان کا کہنا ہے کہ فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے والے مغربی ممالک کی بڑھتی ہوئی تعداد سے زمینی حالات میں فوری تبدیلی نہیں آئے گی۔ تاہم اس سے اسرائیل کو واضح پیغام جاتا ہے کہ فلسطینی علاقوں پر قبضہ ہمیشہ جاری نہیں رہ سکتا۔
’حماس کے لیے انعام‘ ٹرمپ
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا خیال ہے کہ مغربی ممالک کی طرف سے فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنا عسکریت پسند گروپ حماس کو اسرائیل پر حملے کے لیے انعام دینے کے مترادف ہے۔
وائٹ ہاؤس کی پریس سکریٹری کیرولین لیویٹ نے پریس بریفنگ کے دوران کہا: ’’سچ کہوں تو، وہ (ٹرمپ) سمجھتے ہیں کہ یہ حماس کے لیے ایک انعام ہے۔ اس لیے ان کا خیال ہے کہ یہ فیصلے ہمارے کچھ دوستوں اور اتحادیوں کی طرف سے صرف باتیں ہیں اور یہ کافی نہیں ہیں۔‘‘
اسرائیل اور وزیر اعظم بینجیمن نیتن یاہو بھی یہی کہتے رہے ہیں اور انہوں نے اتوار کو برطانیہ، کینیڈا اور آسٹریلیا کے اعلانات کی شدید مذمت کی تھی۔
ٹرمپ منگل کے روز ہی اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے اپنی دوسری میعاد کے دوران پہلی تقریر کرنے والے ہیں، جہاں وہ اس متنازعہ موضوع پر بھی بات چیت کریں گے۔
لیویٹ نے بریفنگ میں بتایا کہ ٹرمپ اقوام متحدہ کی اسمبلی میں اہم مسلم ممالک کے رہنماؤں کے ساتھ ’’کثیرالجہتی ملاقات‘‘ کریں گے، جن میں قطر، سعودی عرب، انڈونیشیا، ترکی، پاکستان، مصر، متحدہ عرب امارات اور اردن شامل ہیں۔