جنرل اسمبلی میں چارویٹو ممالک نے فلسطین کو آزاد و خودمختار ریاست تسلیم کرلیا ،امریکہ اب بھی اسرائیل کے ساتھ کھڑا ہے ، سردارمسعود

منگل 23 ستمبر 2025 23:19

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 23 ستمبر2025ء) آزاد کشمیر کے سابق صدر اور اقوام متحدہ میں پاکستان کے سابق مستقل مندوب سردار مسعود خان نے کہا ہے کہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اراکین کی اکثریت اور پانچ ویٹو پاورز میں سے چار نے فلسطین کو آزاد و خودمختار ریاست تسلیم کرلیا ہے لیکن امریکہ اب بھی اسرائیل کے ساتھ کھڑا ہے اور وہ فلسطین کو اقوام متحدہ کا رکن اور علیحدہ ریاست بننے کی کسی بھی کوشش کو ویٹو کرکے رکاوٹ پیدا کرسکتا ہے۔

سلامتی کونسل کے دو مستقل ارکان فرانس اور برطانیہ فلسطین کو آزاد و خود مختار ریاست کے طور پر تسلیم کرکے روس اور چین کی صف میں شامل ہوگئے ہیں جنہوں نے پہلے ہی 1988 میں فلسطینی ریاست کو تسلیم کر لیا تھا۔ اسرائیل فلسطین تنازعہ اور اس تنازعہ کے حل کے لئے بین الاقوامی کوششوں کے حوالے سے اپنے مختلف ٹی وی انٹرویوز میں سردار مسعود خان نے کہا کہ امریکہ کی حمایت کے بغیر اس تنازعہ کا کوئی قابل عمل اور پائیدار حل ابھی ممکن نظر نہیں آتا کیونکہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اراکین اور سلامتی کونسل کے پانچ مستقل اراکین میں سے چار کی حمایت کے باوجود امریکہ ویٹو کرکے آزاد فلسطینی ریاست کو اقوام متحدہ کا رکن بنانے کی راہ میں رکاوٹ کھڑی کرسکتا ہے۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ جنرل اسمبلی فلسطینی ریاست کے حق میں قرارداد منظور کرسکتی ہے لیکن یہ قرارداد اس وقت تک مؤثر نہیں ہوسکتی جب تک سلامتی کونسل اس کی منظوری نہ دے۔ اب صورتحال یہ ہے کہ ایک طرف پوری دنیا فلسطین کی حمایت میں کھڑی ہے اور دوسری طرف دو ملک امریکہ اور اسرائیل کھڑے ہیں جنہیں دنیا کی رائے عامہ کی کوئی پرواہ نہیں ہے۔ اس وقت غزہ کے عوام یا مجموعی طور پر فلسطین کے عوام کے حق میں جو آوازیں گونج رہی ہیں وہ صرف حکومتوں کی نہیں بلکہ عوام الناس کی آوازیں بھی ہیں جو کسی ایک خطے یا علاقے سے نہیں بلکہ پوری دنیا سے اٹھ رہی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اسرائیل نے اکتوبر 2023 کے بعد غزہ میں جو ظلم و ستم کیا، وہاں جو جنگی جرائم کئے یا غزہ کو تباہ و برباد کرکے اور فلسطینیوں سے خالی کروا کر وہاں نئی اسرائیلی آبادیاں قائم کرنے کی راہ ہموار کی، بچوں کو قتل کیا، پناہ گاہوں اور ہسپتالوں میں فلسطینیوں کو مارا، اس سب کا مقصد یہ تھا کہ ان علاقوں کو خالی کرا کے اور یہاں فوجی قبضہ کرکے نئی یہودی بستیاں تعمیر کی جائیں اور اس کوشش میں اسے امریکہ کی حمایت حاصل تھی۔

امریکہ کو چھوڑ کر بیشتر مغربی ممالک کوشش کر رہے ہیں کہ سعودی عرب اور دوسری خلیجی ریاستوں کے ساتھ مل کر فلسطین کو ایک متصل ریاست بنایا جائے اور اس کی 1967 سے پہلے والی سرحدیں بحال کی جائیں اور اسرائیل کے اندر غیر قانونی بستیاں جن میں سات لاکھ اسرائیلی آباد ہیں انہیں خالی کرایا جائے۔ جب سردار مسعود خان سے پوچھا گیا کہ کیا آنے والے دنوں میں غزہ اور فلسطین کے دوسرے حصوں میں اسرائیلی مظالم میں کوئی کمی آئے گی تو انہوں نے کہا کہ مظالم میں کمی نہیں بلکہ تیزی آئے گی کیونکہ اسرائیل بہت تیزی سے غزہ پر فوجی قبضہ کرکے اسے اسرائیلی ریاست کا حصہ بنانا چاہتا ہے تاکہ یہاں مزید اسرائیلی بستیاں تعمیر کی جائیں۔

دنیا میں اسرائیل کے خلاف احتجاج تو ہورہا ہے اور اس کے خلاف نفرت بھی بڑھ رہی ہے لیکن کوئی ملک عملی قدم اٹھا کر اسرائیل کا ہاتھ روکنے کے لئے اس وقت تک تیار نہیں ہوگا جب تک امریکہ اسرائیل کے اوپر سے اپنا ہاتھ اٹھا نہیں لیتا۔ جنرل اسمبلی کے اجلاس کے موقع پر بہت سی خلیجی ریاستوں کے رہنما، جن میں پاکستان بھی شامل ہے، امریکی صدر ٹرمپ سے ملاقات کرکے اس بات پر زور دیں گے کہ امریکہ بھی فلسطینی ریاست کے قیام اور اس کے ٹھوس وجود کے لئے آمادہ ہو جائے لیکن امریکہ کی حمایت اس وقت مشکل نظر آتی ہے کیونکہ اسرائیلی لابی امریکہ میں حاوی ہے اور وہاں اسرائیل سے متعلق کوئی فیصلہ اسرائیل کی مرضی اور منشا کے بغیر نہیں ہوسکتا۔