اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 28 ستمبر 2025ء) پاکستان کی پہلی ایچ پی وی ویکسین مہم کا ہدف 11 ملین لڑکیوں کو یہ ویکسین دینا تھا لیکن ہفتے کے روز مہم کے اختتام تک صرف نصف مطلوبہ خوراکیں ہی دی جا سکیں۔
پاکستان میں ایک طویل عرصے سے آن لائن چلنے والی یہ سازشی تھیوری گردش کر رہی ہے کہ مغربی ممالک کی تیار کردہ ویکسینز مسلم آبادی کو کم کرنے کے لیے استعمال ہوتی ہیں۔
اسی طرح یہ غلط معلومات بھی پھیلائی گئیں کہ ویکسین لڑکیوں کے ہارمونز کو متاثر کرتی ہے اور شادی سے پہلے جنسی سرگرمی کو فروغ دیتی ہے، جو کہ ایک ایسے معاشرے میں ممنوع ہے، جہاں شادی سے پہلے جنسی تعلقات کی اجازت نہیں ہے۔گھروں کے دروازے بند
کراچی کے ایک نچلے اور درمیانے طبقے کے علاقے میں گھر گھر جا کر ویکسین دینے والی عنبرین زہرہ نے بتایا، ''کچھ لوگوں نے ہمیں مسترد کر دیا، اپنے دروازے بند کر دیے اور یہاں تک کہ اپنی بیٹیوں کی عمر کے بارے میں معلومات بھی چھپائیں۔
(جاری ہے)
وفاقی وزارت صحت کے ایک اہلکار نے اپنا نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ صرف نصف مطلوبہ ویکسینز دی جا سکی ہیں۔ انہوں نے جمعے کے روز کہا، ''بہت سی لڑکیاں، جن تک ہم پہنچنا چاہتے تھے، ابھی تک ویکسین سے محروم ہیں۔ لیکن ہم اس بات کے پابند ہیں کہ مہم کے اختتام کے بعد بھی ویکسین کی دستیابی کو یقینی بنائیں تاکہ زیادہ سے زیادہ خواتین اور لڑکیوں کو یہ ویکسین دی جا سکے۔
‘‘راولپنڈی کے مضافات میں ایک اسکول کی ایک ٹیچر نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ان کے اسکول میں ایک بھی ویکسین نہیں دی گئی کیونکہ والدین نے اجازت دینے سے انکار کر دیا تھا۔ انہوں نے بتایا کہ دیہی علاقوں کے اسکولوں کو بھی اسی صورتحال کا سامنا ہے۔
محکمہ صحت کے ایک اہلکار، جنہوں نے اپنا نام نہ بتانے کی درخواست کی، نے کہا کہ کچھ نجی اسکولوں نے ویکسین کے کارکنوں کو روکنے کے لیے کئی دنوں تک اسکول بند کر دیے۔
اسلام آباد کی اعلیٰ صحت اہلکار سیدہ راشدہ بتول، جنہوں نے اپنی بیٹی کو ویکسین لگا کر مہم کا آغاز کیا، نے کہا، ''پہلے دن ہم اپنے ہدف کے 29 فیصد تک پہنچے، یہ اچھا نہیں تھا، لیکن ٹھیک ہی تھا۔‘‘
انہوں نے مزید کہا، ''اس پہلے دن کی شام کو سازشی ویڈیوز آن لائن گردش کرنے لگیں اور اس کے بعد یہ شرح گر گئی۔ سب کچھ بدل گیا۔
‘‘سازشی نظریات کا فروغ
کئی سال پہلے ایک احتجاج کے دوران آنسو گیس سے متاثر ہونے والی ایک اسکول کی لڑکیوں کی ایک ویڈیو، جو درد سے دوہری ہو گئی تھیں، کو آن لائن دوبارہ شیئر کیا گیا اور دعویٰ یہ کیا گیا کہ یہ ویڈیو ویکسین کے مضر اثرات دکھاتی ہے۔
دائیں بازو کی ایک مذہبی جماعت کے مقبول رہنما راشد محمود سومرو نے گزشتہ ہفتے کہا تھا کہ یہ ویکسین، جو رضاکارانہ ہے، حکومت لڑکیوں کو زبردستی لگا رہی ہے۔
انہوں نے کراچی میں ایک ریلی سے خطاب کرتے ہوئے کہا، ''حقیقت میں ہماری بیٹیوں کو بانجھ بنایا جا رہا ہے۔‘‘
یہ ویکسین آبادی کو کنٹرول کرے گی؟
95 فیصد کیسز میں گریوا کینسر ہیومن پیپیلوما وائرس (ایچ پی وی) کی مسلسل انفیکشن کی وجہ سے ہوتا ہے۔ یہ وائرس جنسی سرگرمی کے ذریعے پھیلتا ہے، بشمول غیر دخولی جنسی تعلقات کے، جو تقریباً ہر کسی کو متاثر کرتا ہے۔
عالمی ادارہ صحت سے منظور شدہ ایچ پی وی ویکسین گریوا کے کینسر سے تحفظ کے لیے ایک محفوظ اور سائنسی بنیادوں پر تیار کردہ ویکسین ہے اور اس کا 150 سے زائد ممالک میں زندگیاں بچانے کا طویل ریکارڈ ہے۔
ہیپاٹائٹس، بیرون ملک ملازمت کے خواہشمند پاکستانیوں کے لیے ایک خاموش رکاوٹ
گریوا کا کینسر خاص طور پر پاکستان جیسے کم اور درمیانی آمدنی والے ممالک میں جان لیوا ہے، جہاں یونیسیف کے مطابق سالانہ تشخیص ہونے والی 5000 خواتین میں سے تقریباً دو تہائی ہلاک ہو جاتی ہیں، حالانکہ یہ تعداد ممکنہ طور پر کم رپورٹ کی گئی ہے۔
اس کی وجہ بیماری کے بارے میں شعور کی نمایاں کمی، جنسی صحت کے حوالے سے ثقافتی پابندیاں اور اسکریننگ اور علاج کی ناقص سہولیات ہیں۔
اسے اس نقصان دہ تاثر نے مزید اجاگر کیا ہے کہ صرف متعدد جنسی شراکت داروں والی خواتین ہی جنسی طور پر منتقل ہونے والی بیماریوں کا شکار ہو سکتی ہیں۔
ویکسین کی اہمیت
یورپی کمیشن کے مطابق یورپ میں، جہاں ایچ پی وی ویکسین انتہائی مؤثر ثابت ہوئی ہے، 2020 میں یورپی یونین کے تمام 27 ممالک میں تقریباً 30 ہزار خواتین میں اس کی تشخیص ہوئی اور ان میں سے ایک تہائی ہلاک ہو گئیں۔
کراچی کی رہائشی، ایک 30 سالہ ماں، مریم بی بی نے بتایا، ''میرے شوہر اس کی اجازت نہیں دیں گے۔ یہ کہا جا رہا ہے کہ یہ ویکسین بچوں کو بانجھ کر دے گی۔ یہ آبادی کو کنٹرول کرے گی۔‘‘
لاہور کی 42 سالہ خاتون ہما سلیم نے کہا کہ وہ اس ویکسین کو ''غیر ضروری‘‘ سمجھتی ہیں۔
انہوں نے اے ایف پی کو بتایا،''تمام کینسر خوفناک ہیں۔
ہم اپنے لڑکوں کو اپنی بیویوں کے ساتھ وفادار رہنے کے لیے کیوں نہیں کہتے، بجائے اس کے کہ ہم اپنی لڑکیوں کو مزید ویکسینز لینے کے لیے کہیں؟‘‘چند روز قبل ایچ پی وی ویکسین کے بارے میں بے پناہ غلط معلومات کے جواب میں پاکستان کے وزیر صحت سید مصطفیٰ کمال نے اپنی نوعمر بیٹی کو ٹیلی وژن کیمروں کے سامنے یہ ویکسین لگوا کر ایک باہمت اقدام کیا۔
انہوں نے صحافیوں سے کہا، ''اپنے 30 سالہ سیاسی کیریئر میں، میں کبھی اپنے خاندان کو عوام کے سامنے نہیں لایا۔ لیکن جس طرح میری بیٹی مجھے عزیز ہے، اسی طرح قوم کی بیٹیاں بھی مجھے عزیز ہیں، اس لیے میں اسے میڈیا کے سامنے لے آیا۔‘‘
ادارت: مقبول ملک