ملک بھر میں غیر قانونی سگریٹ کی فروخت سے قومی خزانے کو سالانہ اربوں کانقصان، ماہرین کا ریٹیلرز کیخلاف فوری کریک ڈاؤن کا مطالبہ

اتوار 28 ستمبر 2025 17:40

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 28 ستمبر2025ء)ملک بھر میں غیر قانونی اور اسمگل شدہ سگریٹ کی فروخت میں تیزی سے اضافہ قومی معیشت کے لیے سنگین خطرہ بن گیا ہے۔ ماہرین کے مطابق یہ کاروبار نہ صرف قومی خزانے کو سالانہ اربوں روپے کا نقصان پہنچا رہا ہے بلکہ صحت عامہ اور قانونی تمباکو انڈسٹری کے لیے بھی بڑا چیلنج ہے۔ غیر قانونی سگریٹ زیادہ تر خیبرپختونخوا اور آزاد کشمیر میں لگائی گئی فیکٹریوں تیار کیے جاتے ہیں جہاں غیر معیاری اسگریٹ بنا کر جعلی ٹیکس سٹیمپ لگائی جاتی ہے اور معروف برانڈز کی نقل بنا کر مارکیٹ میں فروخت کیے جاتے ہیں۔

اعداد و شمار کے مطابق غیر قانونی سگریٹ کی مارکیٹ حصے داری 26 فیصد سے 63 فیصد کے درمیان ہے اور بعض اوقات ان کی فروخت قانونی سگریٹ کے مقابلے میں ڈیڑھ گنا زیادہ ہو جاتی ہے۔

(جاری ہے)

ماہرین کا کہنا ہے کہ اس صورتحال کے باعث حکومت کو ریونیو کے شعبے میں شدید مشکلات کا سامنا ہے اور سالانہ اربوں روپے قومی خزانے میں شامل نہیں ہو پاتے۔ ان کے مطابق سستی قیمتوں کے باعث نوجوان طبقہ غیر قانونی سگریٹ کا سب سے بڑا خریدار بن چکا ہے جبکہ ان پر صحت کے انتباہات درج نہ ہونے کی وجہ سے انسداد تمباکو نوشی مہم کو بھی نقصان پہنچ رہا ہے۔

ماہرین کے مطابق ریٹیلرز شاہس پر حکومت کی مقر کردہ قیمت سے کم پر مقامی اسگریٹ برانڈ فروخت ہو رہے ہیں جس کی بڑی وجہ ان برانڈ کے مالکان حکومتی ٹیکس ادا نہیں کرتے۔ ماہرین کے مطابق غیر قانونی اسگریٹ کے دھندے کو فروغ دینے میں ریٹیلرز کا سب سے بڑا کردار ہے لہذا ضروری ہے کہ ریٹیلرز کے خلاف بڑے پیمانے پر فوری کریک ڈاؤن شروع کیا جائے، غیر قانونی سگریٹ فروخت کرنے والے دکانداروں پر بھاری جرمانے عائد کیے جائیں اور بار بار خلاف ورزی کرنے والوں کی دکانیں سیل کر دی جائیں۔

ان کا کہنا ہے کہ حکومت اور قانون نافذ کرنیوالے والے ادارے قانونی سگریٹ تیار کرنے والی کمپنیوں کے ساتھ مشترکہ انسداد اسمگلنگ مہم چلائیں اور ٹریک اینڈ ٹریس سسٹم کو مزید مثر بنایا جائے تاکہ جعلی ٹیکس سٹیمپ اور نقلی برانڈز کی بروقت نشاندہی ممکن ہو سکے۔ ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ اگر حکومت نے فوری کارروائی نہ کی تو غیر قانونی سگریٹ مافیا مزید طاقتور ہو جائے گا اور پاکستان کو نہ صرف ریونیو بلکہ صحت اور سماجی سطح پر بھی بڑے بحرانوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔