اہلِ غزہ کی استقامت اور قربانیاں پوری امتِ مسلمہ کے لیے ایک مثال ہیں ،علامہ بلال عباس قادری

منگل 30 ستمبر 2025 19:45

کراچی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 30 ستمبر2025ء)کراچی:غزہ میں جاری تباہی اس بات کا ثبوت ہے کہ اسرائیل صرف گھروں کو نہیں بلکہ زندگی کے تمام بنیادی ڈھانچے اسکول،اسپتال،پانی اور بجلی کے نظام کو بھی نشانہ بنا رہا ہے تاکہ عوام کو مکمل طور پر مفلوج کیا جا سکے۔ان خیالات کا اظہار پاکستان سنی تحریک کے مرکزی صدر صاحبزادہ علامہ بلال عباس قادری نے کرتے ہوئے کہا کہ اہلِ غزہ کی استقامت اور قربانیاں پوری امتِ مسلمہ کے لیے ایک مثال ہیں۔

افسوسناک امر یہ ہے کہ مسلم دنیا کے اکثر حکمران خاموش ہیں یا صرف بیانات پر اکتفا کر رہے ہیں۔او آئی سی جیسا بڑا پلیٹ فارم بھی مثر اور عملی اقدامات کرنے میں ناکام رہا ہے۔حقیقت یہ ہے کہ غزہ اس وقت تنہا کھڑا ہے اور امریکہ کی کھلی حمایت اسرائیل کو مزید ظلم پر اکساتی ہے۔

(جاری ہے)

بلال عباس قادری کا مزید کہنا تھا کہ غزہ میں جاری جنگ نے نہ صرف ہزاروں جانیں چھین لیں بلکہ بنیادی انفراسٹر کچر بھی تباہ ہوگیا ہے۔

بین الاقوامی ردعمل میں سخت بیانات تو آئے ہیں مگر عملی و یکساں کارروائیاں محدود رہیں، جبکہ امریکہ کی واضح سیاسی حمایت نے اس تنازع کی راہ کو پیچیدہ بنایا ہے۔اقوامِ متحدہ اور مقامی صحت کے حکام کے اعداد و شمار کے مطابق، جنگ کے دوران بڑے پیمانے پر شہری ہلاکتیں اور زخمی ہوئے ہیں۔ طبی سہولتوں اور پناہ گاہوں پر حملوں کی وجہ سے ہلاکتوں میں اضافہ ہوا ہے۔

مریضوں کی دیکھ بھال تقریبا منجمد ہوگئی ہے۔بچوں کی تعلیم بری طرح متاثر ہوئی اور طبی خدمات محدود رہیں۔ عالمی ادارے اور انسانی حقوق کی تنظیمیں اس طرزِ عمل پر اپنا کوئی کردار ادا نہیں کررہی ہیں۔اقوامِ متحدہ کے بین الاراض اداروں نے غذائی بحران، بچوں میں شدید غذائی قلت اور بڑھتی ہوئی بچوں کی بد حالت پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔متعدد مسلم ممالک اور اسلامک تعاون تنظیم او آئی سی نے غزہ کی حالت پر مذمتی قراردادیں اور بیانات جاری کیے ہیں،مگر عملی اثر محدود رہا ہے۔

امریکہ نے روایتی طور پر اسرائیل کو سیاسی اور عسکری حمایت دی ہے تاہم عالمی سطح پر امریکی پالیسی پر تنقید اور عوامی رائے میں بدلا بھی دیکھنے میں آیا ہے۔انسانی حقوق کی بین الاقوامی رپورٹس اور بعض اقوامِ متحدہ کے کمیشنوں نے اس تنازع کے بعض پہلوں کو جرمِ جنگ یا نسلِ کشی کے میعار کے تحت دیکھنے کی سفارشات کی ہیں۔ اس سے عدالتی کاروائیوں، بین الاقوامی تحقیقات اور مستقبل میں عدالتی دبا آئی سی سی یا جے سی آئی مقدمات کے امکانات کھلتے ہیں، مگر عملی احتساب کا عمل سیاسی و قانونی رکاوٹوں سے دوچار ہے۔