اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 03 اکتوبر2025ء) قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے منصوبہ بندی، ترقی و خصوصی اقدامات نے سیلاب کے بعد تعمیرنو اور بحالی کے اقدامات میں وفاقی اور صوبائی ڈیزاسٹر مینجمنٹ اداروں کے درمیان بہتر ہم آہنگی پرزوردیتے ہوئے کہاہے کہ بعد از سیلاب مالی نقصانات کے جامع تخمینے اور ریلیف فنڈز کی شفاف تقسیم کیلئے ایک جامع پالیسی تشکیل دینا ضروری ہے تاکہ مستقبل میں نقصانات کو روکا جا سکے۔
قائمہ کمیٹی کا اجلاس جمعہ کویہاں چیئرمین کمیٹی سید عبدالقادر گیلانی کی زیر صدارت منعقد ہوا جس میں ملک بھر میں سیلاب سے نمٹنے اور بحالی کی جاری کوششوں کا جائزہ لیا گیا۔ کمیٹی کو حالیہ تباہ کن سیلاب کے اثرات اور نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے) کی زیر قیادت بڑے پیمانے پر جاری ریسکیو اور ریلیف آپریشنز پر بریفنگ دی گئی۔
(جاری ہے)
اجلاس کو بتایا گیا کہ بارشوں اورسیلاب کی وجہ سے جون سے اکتوبر 2025ء کے دوران 1,037 افراد جاں بحق ہوئے جن میں سب سے زیادہ اموات خیبرپختونخوا اورپنجاب میں ہوئیں، خیبرپختونخوا میں 509 اور پنجاب 322 افراد جاں بحق ہوئے جبکہ 1,067 افراد زخمی بھی ہوئے جن میں خواتین اور بچے شامل ہیں۔اجلا س کوبتایاگیا کہ لائیوسٹاک کیلئے 20 لاکھ جانوروں کو بیماریوں سے بچانے کے لیے ویکسین لگائی گئی۔
سیلاب سے 12,569 گھر تباہ ہوئے اور وزارت منصوبہ بندی نے فصلوں کے نقصانات کا سروے شروع کر دیا ہے۔ مجموعی طور پر 17,370 ٹن امدادی سامان تقسیم کیا گیا جن میں وزیراعظم ریلیف پیکیج کے تحت 2,595 ٹن، صوبائی ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹیز (پی ڈی ایم ایز) کی جانب سے 2,694 ٹن اور افواج پاکستان و غیر سرکاری تنظیموں کی جانب سے 8,802 ٹن راشن شامل ہے۔اجلاس کوبتایاگیا کہ جون تا ستمبر 2025ء کے دوران 5,769 ریسکیو اور ریلیف آپریشنز کیے گئے جن میں 30 لاکھ افراد کو محفوظ مقام پر منتقل کیا گیا۔
مزید برآں 741 میڈیکل ریلیف کیمپس قائم کیے گئے جن سے 6 لاکھ 62 ہزار سے زائد افراد مستفید ہوئے۔ اگرچہ جانی نقصان محدود رہا، لیکن بنیادی ڈھانچہ کو شدید نقصان اب بھی بڑا چیلنج ہے۔ این ڈی ایم اے اور وزیراعظم ریلیف پیکیج کی وجہ سے امدادی کیمپوں اور طبی سہولتوں کے قیام میں مددملی ہے۔ کمیٹی کو بتایا گیا کہ وزیراعظم نے جاں بحق افراد کے لواحقین کے لیے فی کس 20 لاکھ روپے امداد کی منظوری دی ہے۔
اس موقع پر اراکین نے اس امداد کی تقسیم اور اس کے موثرہونے پر تحفظات کا اظہار کیا۔کمیٹی نے خاص طور پر ملتان اور بہاولپور جیسے اضلاع میں امدادی سامان کی تقسیم پر عدم اطمینان کااظہارکیا۔ اراکین نے کہا کہ متاثرہ علاقوں میں سرکاری حکام موجود نہیں تھے اور عوامی نمائندے خود مدد فراہم کرنے پر مجبور ہوئے۔ چیئرمین سید عبدالقادر گیلانی نے کہا کہ امداد کس کو دینی ہے، اس کا فیصلہ کون کرتا ہے؟ وسائل کی تقسیم کا اختیار کس کے پاس ہے؟ مقامی نمائندوں کو جو زمینی حقائق سے واقف ہیں، فیصلوں میں شامل کیوں نہیں کیا گیا؟ ہمیں سب کچھ خود سنبھالنا پڑا۔
کمیٹی نے وفاقی اور صوبائی ڈیزاسٹر مینجمنٹ اداروں کے درمیان بہتر ہم آہنگی پر زور دیا اور فیصلہ کیا کہ آئندہ اجلاس میں تمام متعلقہ پی ڈی ایم اے اور انتظامی حکام کو طلب کیا جائے گا۔اجلاس میں این ڈی ایم اے کے ارلی وارننگ سسٹم کی افادیت پر بھی سوالات اٹھائے گئے۔ ادارے نے بتایا کہ بروقت ایڈوائزریز جاری کی گئی تھیں لیکن سیلاب کے عین وقت کی پیش گوئی ان کے دائرہ کار سے باہر ہے۔
کمیٹی نے مستقبل میں سیلاب کے خطرات کم کرنے کے اقدامات کاجائزہ لیا جن میں مختلف صوبوں میں چھوٹے اور غیر متنازع ڈیمز کی تعمیر اور قدرتی اونچائی والے بڑے ڈیمز کو ترجیح دینا شامل ہے۔ کمیٹی نے سوات (خیبرپختونخوا) اور بعد ازاں ملتان ڈویژن کا دورہ کرنے کا فیصلہ کیا تاکہ زمینی حقائق کا جائزہ لیا جا سکے۔وزارت منصوبہ بندی کو ہدایت کی گئی کہ آئندہ اجلاس میں سیلاب سے بچائو کی حکمت عملی پر تفصیلی پریزنٹیشن دی جائے۔
کمیٹی نے بعد از سیلاب مالی نقصانات کے جامع تخمینے اور ریلیف فنڈز کی شفاف تقسیم پر بھی زور دیا اور ایک جامع پالیسی تشکیل دینے کی ضرورت اجاگر کی تاکہ مستقبل میں نقصانات کو روکا جا سکے۔شرکا کوسیلاب کے بعد زرعی بحالی کی کوششوں پر بھی بریفنگ دی گئی۔ وزارت کے حکام نے بتایا کہ بیجوں کی تقسیم اور آبپاشی نظام کی مرمت جیسے اقدامات کیے جا رہے ہیں۔
کمیٹی نے بلوچستان میں انٹیگریٹڈ فلڈ رسک اسیسمنٹ پروگرام کا بھی جائزہ لیا اور نصیر آباد کا دورہ کر کے منصوبے کی پیش رفت کا معائنہ کرنے کا فیصلہ کیا۔اجلاس میں پاکستان انفراسٹرکچر ڈویلپمنٹ کمپنی لمیٹڈ کے کردار پر بھی بات ہوئی۔ تجویز دی گئی کہ جو منصوبے تاحال صوبوں کو منتقل نہیں ہوئے، انہیں آزمائشی بنیادوں پر پی آئی ڈی سی ایل کے حوالے کیا جائے جس کے لیے ملتان ڈویژن کو بطور مثال فعال کیا جائے گا۔
شرکا نے اس عزم کااعادہ کیاکہ وفاقی و صوبائی حکومتیں مل کر سیلابی ردعمل اور بحالی کی کوششوں کو بہتر بنائیں گی، آئندہ خطرات کم کریں گی اور ڈیزاسٹر مینجمنٹ کے نظام کو مضبوط بنائیں گی۔ کمیٹی نے صورتحال پر قریبی نظر رکھنے اور موثر، طویل المدتی حل تلاش کرنے کے عزم کا اظہار کیا۔اجلاس میں سید عبدالقادر گیلانی، میجر (ر) طاہر اقبال، سید سمیع الحسن گیلانی، اختر بی بی، فرحان چشتی، ناز بلوچ، وزیر مملکت ارمغان سبحانی اور متعلقہ وزارتوں و محکموں کے سینئر حکام نے شرکت کی۔