کراچی 15 سال میں اپنے حق کے 3360 ارب روپے سے محروم کیا گیا، یونس ڈاگھا

کراچی کا سالانہ حق 880 ارب مل جائے تو کے فور، سرکلر ریلوے ،تمام بی آئی ٹیزاور دیگر سڑکیں بن جائیں ، رائونڈ ٹیبل سیشن سے خطاب ملک میں کہیں بھی جو چیز بنتی ہے اس میں 67 فیصد حصہ کراچی کا ہوتا ہے،مگر شہر کا حال سب کے سامنے ہے، جاوید بلوانی بجٹ میں ساڑھے 12 ہزار ارب میں سے 8 ہزار ارب کراچی سے جمع ہوئے جب کہ باقی سب کا ٹیکس میں حصہ صرف ساڑھے 4 ہزار ارب ہے، زبیر موتی والا پیپلزپارٹی کی بدترین گورننس کراچی کے مسائل کی جڑ ہے ، تباہ حال انفراسٹرکچر کی ذمے دار سندھ حکومت ہے،سیف الدین ایڈوکیٹ

جمعہ 3 اکتوبر 2025 22:00

کراچی 15 سال میں اپنے حق کے 3360 ارب روپے سے محروم کیا گیا، یونس ڈاگھا
کراچی(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 03 اکتوبر2025ء)کراچی کے مسائل کے حل سے متعلق پاکستان بزنس فورم کراچی چیپٹر کے زیر اہتمام راؤنڈ ٹیبل سیشن ہوا جس میں کراچی کی معروف کاروباری شخصیات نے شرکت کی۔ سابق وفاقی سیکرٹری خزانہ یونس ڈاگھا نے شرکاء کو بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ کراچی کو 2010 میں ہونے والے ساتویں این ایف سی کے بعد گزشتہ 15 سال کے عرصے میں اس کے حق کے 3360 ارب روپے سے بھی محروم رکھا گیا۔

انہوں نے اعداد و شمار کے حوالے دیتے ہوئے بتایا کہ صرف آکٹرائے کی مد میں کراچی کو 1 ہزار ارب کا نقصان ہوا، صوبائی اور وفاقی ترقیاتی پروگرامز کی مد میں کراچی 1360 ارب سے محروم رہا۔ پورٹ سے وصول ہونے والے انفراسٹرکچر سیس کی مد میں بھی شہر کو 1 ہزار ارب کا نقصان ہوا یہ رقم کراچی کے انفراسٹرکچر پر خرچ ہونا چاہیے تھی۔

(جاری ہے)

یونس ڈاگھا نے بتایا کہ کے ایم سی کو 2008 میں 25 ارب روپے ملتے تھے آج بھی 25 ارب ملتے ہیں مگر سندھ حکومت کا بجٹ 15 سال میں 8 گنا بڑھ گیا اور 450 ارب سے بڑھ کر 3500 ارب ہوگیا۔

انہوں نے پی ایف سی کے ذریعے وسائل کی نچلی سطح تک منتقلی کی ضرورت پر زور دیا اور کہا کہ کراچی کو اگر اس کے حق کے سالانہ 880 ارب دیے جائیں تو کے فور، سرکلر ریلوے، بلیو لائن، براؤن لائنز اور دیگر سڑکوں کی بحالی سمیت سب کام ہوجائیں گے۔شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے کراچی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹریز کے چیئرمین جاوید بلوانی نے کہا ہے کہ ملک میں کہیں بھی جو چیز بنتی ہے اس میں 67 فیصد حصہ کراچی کا ہوتا ہے، کراچی کا ہر جگہ 67 فیصد لگا ہوا ہے مگر شہر کا حال سب کے سامنے ہے۔

انہوں نے بتایا کہ صرف حالیہ بارشوں میں اربوں روپے کا نقصان اٹھانا پڑا۔ معروف صنعتکار زبیر موتی والا کا کہنا تھا کہ بجٹ میں ساڑھے 12 ہزار ارب میں سے 8 ہزار ارب کراچی سے جمع ہوئے جب کہ باقی سب کا ٹیکس میں حصہ صرف ساڑھے 4 ہزار ارب ہے۔ دنیا کے تہذیب یافتہ ممالک کا اصول ہے جو ٹیکس زیادہ دیتا ہے وہاں خرچ بھی زیادہ ہوتا ہے۔ اپوزیشن لیڈر سیف الدین ایڈووکیٹ نے پیپلزپارٹی کی بدترین گورننس کو کراچی کے مسائل کی جڑ قرار دیا،انہوں نے بتایا کہ وہ تیسری بار یونین کمیٹی کے چیئرمین منتخب ہوئے ہیں جب پہلی بار نعمت اللہ خان کے دور میں یوسی چیئرمین بنے تو اپنی یوسی کی تمام سڑکیں بنوا دی تھیں مگر آج ایک سڑک بنانا بھی امتحان ہے۔

انہوں نے کہا کہ شہر کے تباہ حال انفراسٹرکچر کی تمام تر ذمے داری سندھ حکومت پر عائد ہوتی ہے۔ پروگرام کے میزبان اور صدر پاکستان بزنس فورم کراچی چیپٹر سہیل عزیز نے کہا کہ کراچی پاکستان کی معاشی شہ رگ ہے مگر حکومت شہر کے بنیادی مسائل کے حل پر توجہ نہیں دے رہی۔ شہر کی بزنس کمیونٹی کو متحد ہو کر شہر کے حقوق کے لیے آواز بلند کرنی چاہیے۔