کنوینئر پارلیمانی کاکس برائے بچوں کے حقوق اور پارلیمانی سیکرٹری برائے سائنس و ٹیکنالوجی ڈاکٹر نکہت شکیل خان کی زیر صدارت اجلاس، پاکستان میں بچوں پر تشدد اور سزا کی شرح پر بریفنگ

بدھ 8 اکتوبر 2025 20:30

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 08 اکتوبر2025ء) کنوینر پارلیمانی کاکس برائے بچوں کے حقوق (پی سی سی آر) اور پارلیمانی سیکرٹری برائے سائنس و ٹیکنالوجی ڈاکٹرنگہت شکیل خان کی زیر صدارت پارلیمنٹ ہاؤس میں ایک اہم اجلاس منعقد ہوا تاکہ پاکستان میں بچوں پر بڑھتے ہوئے تشدد کے واقعات کا جائزہ لیا جا سکے۔ اجلاس میں بچوں پر ہونے والے تشدد، بدسلوکی اور استحصال کے رحجانات کا جائزہ لیا گیا اور ان مقدمات میں سزا کی موجودہ شرح پر بھی غور کیا گیا۔

ڈاکٹر نگہت شکیل خان نے اجلاس کا آغاز شرکا ءاور مہمانوں کو خوش آمدید کہہ کر کیا اور اس بات پر زور دیا کہ قانون سازوں کی اجتماعی ذمہ داری ہے کہ وہ پاکستان کے ہر بچے کے لیے ایک محفوظ اور معاون ماحول یقینی بنائیں۔

(جاری ہے)

انہوں نے بچوں پر تشدد کی روک تھام اور انصاف کی فراہمی کے نظام کو موثر بنانے کی فوری ضرورت پر زور دیا اور قانونی و ادارہ جاتی خامیوں کی نشاندہی کرنے اور موثر پالیسی سفارشات تیار کرنے کے لیے فعال پارلیمانی کردار پر زور دیا۔

اس موقع پر ’’سسٹین ایبل سوشل ڈویلپمنٹ آرگنائزیشن‘‘ (ایس ایس ڈی او) کے نمائندے سید کوثر عباس نے ایک جامع پریذنٹیشن دی جس میں بچوں پر تشدد، چائلڈ لیبر، کم عمری کی شادیوں، انسانی سمگلنگ اور دیگر اقسام کے استحصال کی موجودگی کی تفصیلات فراہم کی گئیں۔ اس رپورٹ میں خیبرپختونخوا، پنجاب، سندھ، بلوچستان اور اسلام آباد کی قانون نافذ کرنے والی ایجنسیوں سے معلومات کے حق کے تحت حاصل کردہ سزا کے اعداد و شمار بھی شامل تھے۔

مباحثے کے دوران بچوں کے تحفظ کو مضبوط بنانے کے لیے متعدد تعمیری تجاویز پیش کی گئیں۔ پارلیمانی سیکرٹری زیب جعفر نے اسلام آباد کے سکولوں میں بچوں اور والدین کو جسمانی حفاظت کے حوالے سے آگاہی دینے کے لیے ’’گڈ ٹچ، بیڈ ٹچ‘‘ پر مبنی کہانیوں کے ذریعے ورکشاپس کے انعقاد کی تجویز دی۔ ڈاکٹر شاہدہ رحمانی نے سکول کے نصاب میں ہراسانی سے متعلق آگاہی کو شامل کرنے پر زور دیا جبکہ ایم این اے سیدہ شہلا رضا نے فلموں جیسے بصری ذرائع کو والدین، بچوں اور اساتذہ میں شعور بیدار کرنے کے لیے موثر قرار دیا۔

سیدہ نوشین افتخار نے اپنے حلقے کے مشاہدات پیش کیے جن میں بچوں کو رشتہ داروں یا گھریلو ملازمین کے ساتھ بغیر نگرانی کے چھوڑنے کے خطرات کی نشاندہی کی گئی۔ڈاکٹر امجد علی نے سکولوں اور مدارس میں محفوظ اور باقاعدہ ماحول کی اہمیت پر زور دیا جبکہ سید قاسم علی گیلانی نے متاثرین کو غیر ضروری دبائو سے بچانے کے لیے فوری سزا کے عمل کو تیز کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔

ایم این ایز ڈاکٹر شازیہ ثوبیہ اسلم سومرو، فرح ناز اکبر اور صوفیہ سعید شاہ نے اساتذہ اور عملے کی جامع تربیت اور مشاورت کی ضرورت پر زور دیا تاکہ بچے بدسلوکی کو پہچان سکیں اور اس کا موثر مقابلہ کر سکیں۔ پارلیمانی سیکرٹری آسیہ اسحاق صدیقی نے موبائل فونز اور گیمنگ کنسولز میں اینٹی ہراسمنٹ فیچرز شامل کرنے کی تجویز پیش کی اور اس سلسلے میں وزارت آئی ٹی سے تعاون کا مطالبہ کیا۔

بیرسٹر دانیال چوہدری نے ان ادارہ جاتی ڈھانچوں کو مضبوط بنانے کی ضرورت پر روشنی ڈالی جو ان بچوں کو بچا سکیں جو رشتہ داروں کے ذریعے جبری بھیک منگوانے جیسے استحصال کا شکار ہوتے ہیں۔اجلاس کے اختتام پر ڈاکٹر نگہت شکیل خان نے بچوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے تمام اراکین کی مسلسل وابستگی کو سراہا اور ایس ایس ڈی او کی قیمتی شراکت پر شکریہ ادا کیا۔

اجلاس کا اختتام ایک گروپ فوٹو کے ساتھ ہوا جو پاکستان کے بچوں کے تحفظ کی جانب ایک اہم قدم کی یادگار کے طور پر لیا گیا۔اجلاس میں پی سی سی آر کے نمایاں اراکین شریک ہوئے جن میں ڈاکٹر شاہدہ رحمانی (سیکرٹری ویمن پارلیمنٹری کاکس)، سیدہ نوشین افتخار (صدر ینگ پارلیمنٹرین فورم)، شائستہ پرویز (کنوینر پارلیمنٹری ٹاسک فورس برائے ایس ڈی جیز)، پولین بلوچ (چیئرمین قائمہ کمیٹی برائے اطلاعات و نشریات) اور پارلیمانی سیکرٹریز فرح ناز اکبر، رانا انصار، آسیہ اسحاق صدیقی، زیب جعفر، کرن عمران دار (آن لائن شرکت)، بیرسٹر دانیال چوہدری، ایم این ایز سیدہ شہلا رضا، نزہت صادق، ڈاکٹر شازیہ ثوبیہ اسلم سومرو، سید علی قاسم گیلانی (آن لائن شرکت)، صوفیہ سعید شاہ (آن لائن)، آسیہ ناز تنولی اور امجد علی شامل تھے۔

اس کے علاوہ سابق پارلیمنٹرینز ثریا اصغر اور آسیہ ناصر بھی اجلاس میں شریک ہوئیں۔